وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا عالمی وبا ہے اور اس سے پورا ملک متاثر ہوا ہے ، بلوچستان میں غربت زیادہ ہے اس لئے کورونا سے صوبے کے عوام کے مسائل بڑھ گئے ہیں، غربت تیزی سے پھیل رہی ہے ، محنت کشوں کی بہت فکر ہے ، لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ صوبے کرینگے ، تمام صوبوں اور آزاد کشمیر حکومت کیساتھ مشاورت سے 14 اپریل کو کوئی فیصلہ کیا جائے گا، یہ صوبوں کا فیصلہ ہوگا وہ کن کن چیزوں کو کھولنا چاہتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو دورہ بلوچستان میں میڈیا سے گفتگو اور بلوچستان کابینہ ، ارکان صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلیٰ جام کمال اور وفاقی وزیر اسد عمر بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ وزیراعظم نے کہا ان کے بلوچستان کے دورے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کیلئے صوبائی حکومت کیساتھ ملکر اقدامات کئے جائیں اوراس حوالے سے وزیر اعلیٰ کیساتھ بات چیت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا بلوچستان میں غربت زیادہ ہونے کے باعث اس صوبے کے عوام کے مسائل بڑھے ہیں، ہمیں ملک کے غریب اور روزانہ اجرت پر کام کرنیوالے محنت کشوں کی بہت فکر ہے ، ان کی مدد کیلئے ہم نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پروگرام کا آغاز کر دیا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کورونا وائرس کی وبا کے باعث جاری لاک ڈاؤن کے دوران نرمی کرکے جن شعبوں کو کھولنے کی ضرورت ہو گی ان کے بارے میں صوبوں کیساتھ مشاورت سے فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کوئی حکومت اکیلے یہ جنگ نہیں جیت سکتی، آج مغربی دنیا بھی وسائل کے باوجود مشکلات کا شکار ہے ، ہم بحیثیت قوم ملکر اس آفت کا مقابلہ کریں گے اور یہ جنگ جیتیں گے ۔عمران خان نے کہا ہمیں لگ رہا ہے رواں ماہ کے آخر تک ملک کے ہسپتالوں پر بہت دبائو پڑے گا تاہم ہم سب نے ملکر صورتحال سے نمٹنا ہے ،کورونا وائرس کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ، ہمیں اس صورتحال کی وجہ سے 2 چیزوں کی فکر ہے ایک یہ کہ اس سے ہماری صحت کی سہولیات پر جو دباؤ پڑ رہا ہے تاہم فی الحال ابھی اتنا زیادہ دباؤ نہیں ہے لیکن جو ہم دیکھ رہے ہیں اور دنیا میں جس طرح مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہمارا اندازہ ہے کہ اپریل کے آخر تک ہسپتالوں پر بہت دباؤ ہوگا۔وزیراعظم نے کہا پورا ملک اس سے نمٹنے کی تیاری کررہا ہے ، ہمارا ایک نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر بنا ہے جس میں روزانہ سارے چیف سیکرٹریز اور صوبوں کیساتھ رابطہ ہوتا ہے ،اس کے علاوہ ماہرین صحت کورونا وائرس کے کیسز کا مکمل جائزہ لے رہے ہیں اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کتنی اموات ہوئیں اور ان کی کیا عمر تھی جبکہ ابھی کتنے لوگ آئی سی یو میں ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا سب سے ضروری ہے ہم یہ دیکھیں کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں کیسز کس طرح کے ہیں کیونکہ ان کی اور ہماری آبادی ملتی جلتی ہے اور ان سب چیزوں کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے ۔ وزیراعظم کا کہنا تھا ڈاکٹرز، نرسز، ہیلتھ ورکرز کیلئے خصوصی حفاظتی کپڑوں پر پورا زور لگایا ہوا ہے جبکہ جو لوگ انتہائی نگہداشت میں کام کریں گے ان کیلئے حفاظتی کٹس پوری کردی ہیں۔انہوں نے کہا پوری دنیا میں وینٹی لیٹرز اور ذاتی تحفظ کی کٹس کی کمی ہے اور طلب بڑھنے کی وجہ سے دنیا بھر میں دباؤ بڑھا ہوا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا بلوچستان میں اس وقت آئی سی یو میں کورونا کا کوئی بھی مریض نہیں ، بلوچستان میں صرف کوئٹہ گنجان آباد ہے جبکہ دیگر علاقوں میں آبادی دور دور ہے جس کے باعث ان علاقوں میں کورونا کا مقابلہ کرنا آسان ہے تاہم خدانخواستہ یہ بیماری پھیلنی شروع ہوئی تو راولپنڈی، لاہور، پشاور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں صورتحال خراب ہو سکتی ہے ۔ عمران خان کا کہنا تھا مجھے خدشہ ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے یومیہ اجرت والوں، چھوٹے دکانداروں اور دیگر ایسے لوگوں پر بلوچستان میں زیادہ اثر پڑے گا کیونکہ پاکستان میں سب سے زیادہ غربت یہاں ہے ۔انہوں نے کہا 14 اپریل کو صوبے بتائیں گے کہ لاک ڈاؤن مرحلہ وار کیسے ختم کریں گے اور انہیں لاک ڈاؤن میں کن کن چیزوں میں نرمی کرنی ہے اور یہ صوبوں کا فیصلہ ہوگا کہ وہ کن کن چیزوں کو کھولنا چاہتے ہیں کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غربت تیزی سے پھیل رہی ہے ۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا اس وقت وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان مکمل تعاون چل رہا ہے ہم سب ملکر اس کا مقابلہ کریں گے ، صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہیں۔ ان کا کہنا تھا مختلف ممالک میں اب لاک ڈاؤن کو ختم کیا جارہا ہے ،چین نے کورونا وائرس کا مقابلہ کیا اس کے تجربے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو بولان میڈیکل کالج ہسپتال کوئٹہ میں قائم کردہ کورونا قرنطینہ مرکز کا دورہ کیا۔ وزیر اعلیٰ جام کمال خان، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری اور سردار یار محمد رند بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے ۔چیف سیکرٹری بلوچستان نے وزیر اعظم کو آئسولیشن وارڈ اور قرنطینہ مرکز کے بارے میں بریفنگ دی۔دریں اثنا وزیراعظم نے بلوچستان میں اشیا ئے خورونوش کی بلاتعطل فراہمی اور معاشی سرگرمیوں کی روانی، روزگار کے مواقع کی فراہمی اور غربت میں کمی کے حوالے سے ایک موثر اور مربوط حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اس ضمن میں مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے ۔ وہ صوبے میں کورونا وائرس کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ۔ اجلاس میں وفاقی وزرا اسد عمر، زبیدہ جلال، گورنر جسٹس (ر)امان اللہ خان ، وزیراعلیٰ جام کمال خان،کمانڈر سدرن کمانڈ اور سینئر افسر شریک تھے ۔ وزیراعظم کو متاثرین کی نگہداشت، زائرین کی سہولت کیلئے کئے گئے انتظامات، اشیا کی بلاتعطل فراہمی، ڈاکٹروں اور طبی عملے کیلئے حفاظتی کٹس کی فراہمی پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے کہا تھنک ٹینک کی ترجیح ان افراد کی کفالت اور فلاح و بہبود کے حوالے سے اقدامات کی سفارش ہو جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ وزیراعظم سے تحریک انصاف بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینز کے وفد نے ملاقات کی اور وزیراعظم کو کورونا وائرس کے متاثرین کی مدد کیلئے اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کیں۔ وزیراعظم نے ان کے جذبہ کو سراہا اور کہاکہ آزمائش کے وقت میں بھرپور عوامی خدمت کا جذبہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت کی جانب سے معاشرے کے ضرورت مند اور نادار افراد کو براہ راست مالی امداد کی فراہمی کے سب سے بڑے پروگرام کا باضابطہ اجرا کیا گیا۔ انہوں نے کہا اتنے بڑے پیمانے پر نقد رقوم کی تقسیم بلاشبہ ہماری حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہے ، آئندہ 2 ہفتوں کے دوران 12 ملین خاندانوں میں 144 ارب روپیہ تقسیم کیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملک بھر میں بجلی کے نرخ جون 2020تک منجمدکرنے کی منظوری دیدی، حکومت کو اس ضمن میں 151 ارب روپے برداشت کرنے ہوں گے ، قومی اثاثہ جات کو گروی رکھ کر گردشی قرضہ اتارنے کیلئے 200ارب روپے مالیت کے پاکستان انرجی سکوک بانڈ کے فیز ٹو کے اجرا کی منظوری بھی دی گئی۔ ای سی سی کا اجلاس گزشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی صدارت میں ہوا۔ پاور ڈویژن کے ذرائع کے مطابق بجلی کا ٹیرف منجمد کرنے سے 73 ارب روپے سے زائد اور ماہانہ و سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ منجمد کرنے سے 77 ارب روپے سے زائد برداشت کرنے پڑیں گے ۔ پاور ڈویژن کے مطابق اگر وفاقی حکومت یہ دونوں ریلیف بجلی صارفین کو منتقل کرتی تو اس سے گردشی قرضہ میں مزیداضافہ ہوتا۔ وفاقی حکومت بجلی کا ٹیرف منجمد کرنے کی منظوری آئی ایم ایف سے بھی لے گی ۔پاور ڈویژن کے ذرائع کے مطابق اگر وفاقی حکومت ٹیرف منجمد نہ کرتی تو بجلی کے صارفین کا موجودہ ٹیرف 18.65روپے سے بڑھ کر 24.47روپے فی یونٹ ہوجاتا ۔ جنوری 2019میں بجلی صارفین کا اوسط ٹیرف سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے 15.36روپے فی یونٹ سے 18.65روپے فی یونٹ ہوگیا تھا۔ای سی سی کے اجلاس میں بدھ کے اجلاس میں رہ جانے والے ایجنڈا آئٹمز کی منظوری بھی دی گئی۔ ملک میں کورونا وائرس کے باعث بجلی کے میٹروں کی ریڈنگ نہ ہونے ، عوام کے بل ادا کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہونے اور بقایاجات کی ریکوری مہم بند ہونے کے باعث پاور سیکٹر کو بھی 1240ارب روپے کے حکومتی ریلیف پیکیج میں سے کچھ حصہ ادا کرنے کیلئے سیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی گئی جس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین بھی شامل ہوں گے ۔ وزارت توانائی کیلئے 100 ارب روپے بینکنگ سیکٹر سے حاصل کرنے کا سینڈیکیٹ ٹرم فنانس فیسیلٹی کا معاملہ سیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کو سونپ دیا گیا، چیئرمین پاکستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی ان کی معاونت کریں گے ۔ ای سی سی نے پاکستانی روپیہ کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہونے کے باعث آئل کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 60 دن کے اندر اضافہ کرکے ایکسچینج ریٹ کی مد میں نقصانات پورا کرنے کی اجازت دیدی۔ ایکسچینج ریٹ کے نقصان کی مالیت 8 اعشاریہ 9 فیصد ہے جسے پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں اسی تناسب سے اضافہ کرکے ریکور کیا جائے گا۔ ای سی سی نے ایم ڈی سوئی سدرن کمپنی کو تاپی گیس پائپ لائن کے گیس نرخ کا تعین کرنے والی کمیٹی کا رکن بنانے کی بھی منظوری دی۔ ای سی سی نے سیکرٹری خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ پی ایس او کو کچھ ادائیگیاں کرنے کیلئے بجلی کی پیداواری کمپنیوں سے بقایاجات کی وصولی میں مدد فراہم کریں۔ ای سی سی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ پر درآمدات 5دن کی بجائے 15دن کے اندر اندر کارگو ڈیمریج چارجز ادا کئے بغیر کلیئر کرانے کی سہولت دینے کی منظوری دی۔ ای سی سی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کیلئے 16کروڑ روپے ، پائیدار ترقی اہداف کے حصول کیلئے 1ارب70کروڑ روپے ، سپیشل سکیورٹی ڈویژن کیلئے 1ارب14کروڑ 83لاکھ روپے اور سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کیلئے 46کروڑ82لاکھ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری بھی دی۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments