سندھ حکومت کا وزیراعظم ٹائیگر فورس کو ریلیف مہم میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ

سندھ حکومت نے وزیراعظم کی ٹائیگر فورس کو ریلیف مہم میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے چیف سیکرٹری کے خط سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔

صوبائی وزیر امتیاز شیخ کا اس معاملے پر میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سندہ ریلیف آپریشن کوغیر سیاسی رکھا گیا ہے۔ مستحقین تک راشن کی ترسیل شفاف طریقے سے کی جا رہی ہے۔

امتیاز شیخ نے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ورکر ریلیف آپریشن کا حصہ نہیں، ٹائیگر فورس سیاسی ورکروں پر مشتمل ہے۔ تمام کمیٹیاں، این جی اوز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز آپریشن کا حصہ ہیں۔

صوبائی وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کی فورس یا ورکر کو ریلیف آپریشن کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ڈپٹی کمشنرز کو اس قسم کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ کسی بھی پارٹی کی سیاسی فورس ہو، اسے شامل نہیں کریں گے۔ ٹائیگر فورس میں سیاسی ورکرز ہیں۔ جماعت اسلامی، (ن) لیگ والے بھی کہیں گے ہمارے ورکرز کو شامل کیا جائے۔

امتیاز شیخ نے دعویٰ کیا کہ ہمارے پاس اتنے ورکرز ہیں، کسی پارٹی کے ورکرز کی ضرورت نہیں، یہ وہی ڈپٹی کمشنر ہیں جن کو وزیراعظم استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا ٹائیگر فورس کو آئندہ ہفتے ذمہ داریاں سونپ دی جائیں گی، عثمان ڈار

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار نے کہا تھا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کو آئندہ ہفتے سے ذمہ داریاں سونپ دی جائیں گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کو متحرک کرنے کے لئے وزیراعظم آفس نے تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کو مراسلہ جاری کر دیا ہے۔ اس مراسلے میں متعلقہ حکومتی اداروں اور انتظامی افسران کو ضروری ہدایات جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے ہدایات ملتے ہی ٹائیگر فورس کو متحرک کیا جائے گا۔ صوبائی حکومتیں انتظامات مکمل کرکے فورس کو سٹینڈ بائی پر رکھیں۔ ٹائیگر فورس کی رجسٹریشن کے لئے دیا گیا وقت ختم ہونے کے بعد یہ مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے لئے 10 لاکھ نوجوانوں نے رجسٹریشن کرائی ہیں۔ وزیراعظم کے سیٹیزن پورٹل کے ذریعے پنجاب سے 6 لاکھ 28 ہزار 476، سندھ سے ایک لاکھ 47 ہزار 66، خیبر پختونخوا سے ایک لاکھ 37 ہزار 189، بلوچستان سے 14 ہزار 269، اسلام آباد سے 13 ہزار 990، آزاد کشمیر سے 11 ہزار 556 اور گلگت بلتستان سے 5 ہزار 951 نے رجسٹریشن کروائی جبکہ 50 ہزار کے لگ بھگ نوجوانوں نے ویب سائٹ کے ذریعے رجسٹریشن کروائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، وکلا، ریٹائرڈ فوجی افسران اور صحافیوں نے اس فورس کے لئے رجسٹریشن کروائی ہے۔ آئندہ ہفتے سے یہ فورس کام شروع کر دے گی۔ پہلے مرحلے میں 17 ہزار کے لگ بھگ طبی عملہ کی خدمات سے استفادہ کیا جائے گا۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ٹائیگر فورس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ پر مشتمل ٹی او آرز بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ یہ فورس راشن کی تقسیم، مستحق افراد کی نشاندہی، قرنطینہ مراکز کے انتظامات، ورکرز کی ٹرانسپورٹیشن، موبیلائزیشن، محنت کشوں کا ڈیٹاجمع کرنے اور کورونا وائرس کے خلاف آگاہی مہم چلانے کے ذمہ دار ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ہر رضاکار کو باقاعدگی سے اپنا رضاکار شناختی کارڈ ساتھ رکھنا ہوگا یا ڈیوٹی کے دوران اپنی شناخت مہیا کرنا ہوگی۔ جس آفیسر کے ساتھ ڈیوٹی تفویض کی جائے گی اس کو اپنا تعارف کرانا ہوگا۔ جب تک ضلعی انتظامیہ یا کوئی سٹیک ہولڈرز ذمہ داریاں نہیں لگاتا اپنے طور ہر کوئی سرگرمی نہیں کرے گا۔ ایمانداری سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے اور اپنا کام مکمل کرکے حقیقی اعداد وشمار فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا ٹائیگر فورس کو متحرک کرنیکی تیاری، صوبائی چیف سیکرٹریز کو مراسلہ جاری

اس سے قبل کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کو متحرک کرنے کیلئے وزیراعظم آفس نے تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کو مراسلہ جاری کر دیا تھا۔ اس میں متعلقہ حکومتی اداروں اور انتظامی افسران کو ضروری ہدایات جاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

مراسلے کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے ہدایات ملتے ہی ٹائیگر فورس کو میدان میں اتارا جائیگا، صوبائی حکومتیں انتظامات مکمل کر کے فورس کو سٹینڈ بائی پر رکھیں۔ ٹائیگر فورس کی رجسٹریشن کے لئے دیا گیا وقت ختم ہوگیا، ٹائیگر فورس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ پر مشتمل ٹی او آرز بھی جاری کر دیئے گئے ہیں، کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں ممبر شپ معطل کر دی جائیگی۔

ٹائیگر فورس صوبائی، ضلعی، تحصیل اور یونین کونسل سطح تک کام کرے گی، ہنگامی حالات میں راشن کی تقسیم، قرنطینہ مینجمنٹ، ٹرانسپورٹ کا انتظام یقینی بنائے گی، ٹائیگر فورس کو انتظامیہ کی مکمل سرپرستی اور تعاون حاصل ہو گا۔ ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او اور متعلقہ عوامی نمائندے فورس کے ساتھ کام کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں