مالک الملک اور لاڈلی مخلوق، تحریر: ثناء آغا خان

میرے ربّ کی مرضی ومنشاءکے عجب معاملات ہیں ۔ربّ راضی تو کل عالم راضی، یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح کوئی بچے آپس میں کھیلتے ہوئے مٹی کے گھروندے بنا تے ہیں اور جب کھیلنے کے بعد دل بھر جاتا ہے تو ان گھروندوں کواپنے ہاتھوں سے مسمارکر دیتے ہیں۔اس دنیا کا نظام اس وقت تک موجودر ہے گا جب تک میرا پروردگار چاہے گا۔ہم انسانوں کو ایک خاص ربط اورضبط کے ساتھ جینا ہے۔سمجھنا مشکل ہے کہ انسانوں کے معاملات میں پروردگار کی مرضی کچھ ایسے ہی ہے جیسے ٹریفک کے قانون ہر اصول کے پیچھے اس کی حکمت ،اور کچھ صورت صرف اور صرف انسان کو محبت کے پیمانے میں تو لے جانے کیلئے ہے جبکہ کچھ اصولوں میں اللہ تعالیٰ نے پابندی عائد کر دی ہے کہ میں ربّ ہوں نماز پڑھو میں تمہارا ربّ ہوں مجھے سجدہ کرو اورصرف میرے روبرواپنی حاجت یاحاجات بیان کرو ۔اور کچھ معاملات میں ایسے لگتا ہے جیسے ربّ کو انسان کی کوئی ایک ادا پسند آجائے توجنت اس کے اگلے قدم کے نیچے ہوگی۔وہ محبت کرنے پرآئے تو ستر ماؤں سے زیادہ پیارکرے اوراگر اس کے قہراورغضب کامعاملہ ہو تواگلے ہی لمحے سب فنا کر دے۔ ایسے لگتا ہے جس طرح یہ زندگی عشق اور جلال کے مدار پر ناچتی ہے اور اس کا مالک و مختار یعنی ہمارا پروردگار ہر انسان کی زندگی کی اقساط ریکارڈ کرکے اس کی زندگی ایک فلم کی طرح چلا رہا ہے۔جس کا وہ خود پروڈیوسر ،خود ڈائریکٹرہے اور کاسٹ بھی اس نے خودفائنل کی ہے۔
اس کی رضا اور مرضی ومنشاءہوتو رات میں دن کا منظر اورماحول بن جائے اورروشن دن بھی اچانک تاریک رات کا منظر پیش کرنے لگ جائے۔کچھ معاملات میں اپنے جلال کی صفت دیکھا دے اور کچھ معاملات میں انسانوں پر اپنا جمال ظاہرکردے۔اللہ تعالیٰ اپنی رحیم و کریم والی صفات سے انسان کو ہی بھلا دے کہ اس کا پروردگار مالک الملک بھی ہے اور بیشک وہ ہر شے پر قادر بھی ہے۔اسے منظورہو تو صفا اور مروہ کے درمیان اپنے بچے کی پیاس بجھانے کیلئے حضرت ہا جرہ ؑکے بھاگنے کو ہر سال حجاج اکرام کیلئے فرض عبادت بنا دے۔اس کی نظر میں بندہ محبوب وہ ہے جو اپنے فرزندحضرت اسماعیل ؑ کی قربانی سے بھی دریغ نہ کرے اور مالک الملک وہ ہے جو اس بینظیر قربانی کوسنت ابراہیمی کی صورت میں امر کردے اور ہر سال عیدالاضحی پر صاحب حیثیت مسلمانوں پرفرض کردے ۔معلوم نہیں پروردگار کو کس کی کون سی ادا اتنی پسند آئے اور اس کی ساری زندگی کے گناہوں کی بخشش ہوجائے ویسے اگر ہم سارا دن بھوکے پیاسے رہیں تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ جسم جو میں نے تم کو دیا ہے اس پر جبر نہ کرو جوا عضا ءمیں نے تمہیں دیے ہیں ان کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے میں ان سب کا حساب لوں گا۔اور اسی مسلمان کیلئے روزے فرض کردیے کہا اب پورا مہینہ میرے حکم پر بھوک پیاس برداشت کرو اور اس بھوک پیاس کے عوض بے شمار نعمتیں صرف اس جہاں میں نہیں بلکہ بےشمار اجروثواب جو ابدی زندگی میں اس میں ملے گا ۔بیشک روزے اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں اورروزہ داروں کووہ خود اپنے شایان شان اجروثواب دے گا۔پروردگار کے ہر بتائے ہوئے عمل کے پیچھے اس کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے جوکہ آج سائنس نے دلیلوں کے ساتھ ہر انسان پر عیاں کرد ی ہے کہ روزہ ہم انسانوں کیلئے کس قدر بیش قیمت نعمت ہے ،بیشک روزہ شفاءہے۔انسانی جسم بھوکا ر ہتے ہوئے اپنے ہی جسم میں موجود دو غلط قسم کے فیٹس کو جلا کر انسان کو ہلکا پھلکا کر دیتا ہے اسی طرح دین کا ایک درس احساس کا نظریہ بھی سمجھنے میں کارآمد ہوتا ہے۔پروردگار ہر صورت میں اپنے عابدوں،زاہدوں اوربندوں کی بھلائی چاہتا ہے۔پر انسان نہیں سمجھتا ربّ کی ربّ کی جانے میری دعا ہے کہ اس ماہ رمضان میں ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے اورمناتے ہوئے تمام تر مشکلات سے نجات پائیں۔موتی ہے جو سیاہ رات سے دن کے اجالے کو نکالتا ہے وہ چاہے تو آسمانوں اور زمینوں پر جگہ جگہ سجدہ کرنے والے فرشتے کو راند ہ درگاہ کر کے ابلیس شیطان بنا دے۔ ہمیں اپنے پروردگار کے کبیر ہونے کا واسطہ دیتے اوراس کی بلندبارگاہ میں اپنااپناکشکول پھیلاتے ہوئے اس ماہ رمضان کے دوران کرونا کی صورت میں پوری دنیا پر چھائی اس ناگہانی وبا سے پناہ مانگنی ہے۔اس سے نادر موقع پھر دوبارہ نہیں ملے گا۔ماہ رمضان کے تینوں عشرو ں کے دوران عرشوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،روزہ داروں کی سیدھی پکاربراہ راست ربّ خودسنتا ہے۔ اے میرے ربّ یہ منہ اس قابل نہیں ہمارے اعمال کچھ بھی نہیں پرتو رحیم و کریم ہے۔میرے مولا اپنی رحمت کے صدقے میں ہمیں بخش دے ۔ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہمارا ربّ ہماری پکار ضرور سنے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں