بلے اورپلے، تحریر: محمد ناصر اقبال خان

بلے بازی کے مداح یادکریں ماضی میں ”ورلڈ الیون” کے نام اخبارات کی زینت بناکرتے تھے ،اس فہرست میں پاکستان سمیت دنیا کے بہترین گیارہ کھلاڑیوں کانام شامل کیا گیا تھا،یہ محض تصوراتی ٹیم تھی مگر پلیئرزایک زندہ حقیقت تھے ۔ پاکستان بائیس کروڑانسانوں کی ریاست ہے کیا ہم ان 22کروڑ میں سے 22 عددماہرین تلاش نہیں کرسکتے جو سنجیدہ ،فہمیدہ،زیرک، فرض شناس،بااصول ،باوقار، ایماندار اورباکردارہونے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات میں مہارت بھی رکھتے ہوں۔ڈیڑھ برس کامشاہدہ بتارہا ہے پی ٹی آئی کے کپتان سمیت ان کے کسی ٹیم ممبر میں دم نہیں کیونکہ” ڈینگیں ”مارنے اور”ڈیلیور”کرنے میں بہت فرق ہے۔جوانتخابی مہم میں ”بلے ” لہراتے لہراتے اقتدارمیں آگئے تھے ان کے” پلے” کچھ نہیں ہے۔پنجاب کوانتظامی یتیمی کاسامنا ہے ،کپتان کے معتمد بزدار پچھلے دنوں ہوائی جہاز سے اورکچھ دن بیشتر خودگاڑی ڈرائیوکرتے ہوئے کروناکا جائزہ لے رہے تھے،ارباب اقتدار کی اس قسم کی شعبدہ بازیوں نے ریاستی شعبہ جات کابیڑاغرق کردیا ہے۔کروناوبا کے دوران بھی حکمران اشرافیہ کے سیاسی سٹنٹ جاری ہیں ۔تبدیلی کیلئے نعرے کافی نہیں کیونکہ نیت اور صلاحیت کے بغیر ریاستی اورمعاشرتی نظام تبدیل نہیں ہوسکتا،پھرکہتاہوں عمران خان نے وزرات عظمیٰ کومنزل سمجھ لیا جبکہ موصوف کا”سفر”تواب شروع ہوا ہے تاہم بیچارے عوام سات دہائیوں سے سفر” ”sufferکررہے ہیں۔کوئی کپتان تنہا کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ ٹیم ورک کیلئے ممبرز میں بھی قابلیت اورصلاحیت کا ہوناازبس ضروری ہے۔ہمارے اسٹیبلشمنٹ والے گوہرنایاب تلاش نہیں کرتے بلکہ اپنے بے ضرراورفرمانبردار سہولت کاروں کیلئے ” اندھوں” کے ہجوم یاحمام میں سے ”کانوں” اور”بونوں”کاانتخاب کرتے ہیں۔ہمارے ہاں سیاسی قیادت کا”قرب” ہر اس شخص کونصیب ہوتا ہے جوسیاسی طورپر”بونا”ہویاجان بوجھ کر”بونا”بنارہے جبکہ نام نہادجمہوری حکمرانوں اورفوجی آمروں نے عام آدمی کو”کرب” کے سوا کچھ نہیں دیا۔کوئی” دانا”اورتواناسیاستدان ہماری سیاسی قیادت کوایک آنکھ نہیں بھاتا جبکہ ”بونا”خوشامد کے بل پرپارٹی قیادت کی ضرورت اورعادت بن جاتا ہے ، سیاسی پارٹیوں کی طرح سرکاری ادارو ں میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ہمارے ملک میں لوگ ”داناﺅں” سے زیادہ ”دانوں©”کی قدرکرتے ہیں۔ ”جناں دے گھر دانے اوہنادے کملے وی سیانے ”کامحاورہ زبان زدعام ہے۔میرے نزدیک پاکستان کے اندر 22ماہرین کی فہرست میں روحانی، علمی وسیاسی درویش اوردوراندیش مشاہدحسین سیّد سرفہرست ہیں۔مشاہدحسین سیّد کی شخصیت انسانیت،آفاقیت، روحانیت ،علمیت اورپاکستانیت کی آئینہ دارہے ،دلی دعا ہے مشاہدحسین سیّدکے اوصاف حمیدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے پاکستان کیلئے کوئی بڑاکام لیاجائے۔ پاک فوج کے سابقہ پروفیشنل سپہ سالارجنرل (ر)راحیل شریف،پنجاب کے سابقہ گورنراورنیک نام سیاستدان سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ،شہرملتان کے سلطان مخدوم شاہ محمودقریشی،بلوچستان سے وفاق پرست اور پاکستانیت کے علمبردار نواب غوث بخش باروزئی ، قومی اسمبلی کے سابقہ کہنہ مشق ڈپٹی اسپیکرسینیٹر چوہدری جعفر اقبال گجر جوپاکستان میں صدارتی طرزحکومت کے حامی ہیں، جنوبی پنجاب سے نفیس سیاسی شخصیت چوہدری جعفر اقبال نے یہ مثبت تجویزاپنے قائدمیاں نوازشریف کے دوراقتدارمیں دی تھی ۔میں بھی پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کاخواہاں ہوں۔سچائی تک رسائی کے حامی دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر)غلام مصطفی، راولپنڈی سے مثبت سیاسی اقداروروایات کے حامل منجھے ہوئے سیاستدان اور پنجاب کے زیرک صوبائی وزیرقانون محمدبشارت راجا ،لاہور سے ہردلعزیزسیاسی وسماجی شخصیت،ماہرمعدنیات اورسینئر کالم نگار میاں محمدسعید کھوکھرایڈووکیٹ،شہرقائدؒسے ماہرآئین وقانون جسٹس (ر)وجیہہ الدین احمد ،مدبروبردبارسیاستدان اورممتازقانون دان بابر اعوان ،مریدکے سے ممبرقومی اسمبلی اورزیرک سیاستدان راناتنویرحسین، صوبہ بلوچستان کے باکمال اورفعال وزیراعلیٰ میرجام کمال خان ،بلوچستان کے سابق دبنگ وزیرداخلہ سینیٹر سرفرازخان بگٹی،بلوچستان کے سابق مستعد ترجمان سینیٹر انوارالحق کاکڑ ، انتھک صوبائی وزیرصنعت وتجارت میاں اسلم اقبال ، پنجاب کے پروفیشنل چیف سیکرٹری میجر (ر)اعظم سلیمان خان میرے نزدیک ان 22ماہرین میں نمایاں ہیں۔میں سمجھتاہوں پارلیمانی جمہوریت کے دوران اقتدار میں” بزدار” آتے رہے ہیں اورآتے رہیں گے لیکن صدارتی طرزحکومت میں صرف وہ ایوان صدرمیں آئے گاجو مشاہدحسین سیّد ، سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ،چوہدری جعفر اقبال ، نواب غوث بخش باروزئی،راناتنویرحسین ، سینیٹر انوارالحق کاکڑ اورمیجر (ر)اعظم سلیمان خان کی طرح” بردبار” ہوگا۔پاکستان کوبزداروں نہیں بردباروں کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے دوبڑے مسائل جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناسوربنتے جارہے ہیں ،ان میں سے ایک بدترین بدعنوانی اوردوسراحد سے زیادہ بدانتظامی ہے۔پاکستان کے مقتدرطبقات سمیت اثرورسوخ کی حامل شخصیات کی طرف سے مداخلت ،دباﺅاور سفارش کی روش نے ہماری معاشرت اورمعیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔نااہل اورناتجربہ کار افراد کو محض وفاداری کی بنیادپراہم ترین عہدوں سے نواز ے جانے کانتیجہ بدانتظامی،بدنامی اورناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔پچاس بچوں کوزیورتعلیم سے آراستہ کرنے والے ٹیچر کیلئے تو سخت میرٹ ہے مگر 22کروڑ پاکستانیوں کی رہنمائی اوران کی قسمت کے فیصلے کرنیوالے وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ ، منتخب نمائندوں ،وزیروں اور مشیروں کیلئے کوئی میرٹ نہیں۔جوریاستی نظام ایک اناپرست ایم پی اے کو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ملک وقوم کی خدمت کیلئے پی ایس پی گروپ منتخب کرنیوالے نیک نام اورقانون کی حکمرانی کے علمبردارڈی پی او مظفر گڑھ سیّد ندیم عباس کیخلاف تحریک استحقاق پیش کرنے کاحق دے وہ ایک بڑاسوالیہ نشا ن ہے۔ڈی پی اوسیّدندیم عباس اپنے کام میں بیجابیرونی مداخلت اوردھونس دباﺅبرداشت نہ کرنیوالے پروفیشنل پولیس آفیسر ہیں،اہل سیاست اورارکان اسمبلی کے دباﺅ پرفرض شناس پولیس آفیسرزکے تبادلے پولیس کلچر کی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔پاکستان میں جوٹیچر کے میرٹ پرپورانہیں اترتا وہ پارلیمنٹرین جبکہ بعدازاں اقتدار کے بل پرملک قوم کے مقدراورمستقبل کامالک ومختاربن جاتا ہے،ہمارے ملک میں تو میٹر”ریڈر”بھی جمہوریت کی رتھ پرسوار ہوکر” لیڈر”بن جاتے ہیں۔جس کوپولیس میں منصب ومقام نہیں ملتاوہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی طرح پی ٹی آئی میں دوچار بردبار بھی شامل ہوگئے ہوں مگر کپتان نے بہت محنت اورتلاش کے بعد”بزدار” کوپنجاب کا وز یر اعلیٰ بنادیا جبکہ پی ٹی آئی کے” بردبار ”دیکھتے رہ گئے۔پی ٹی آئی سمیت ہرحکمران جماعت میں عہدوں کیلئے بردبار نہیں بزدارہوناضروری ہے اوراس وقت کئی وفاقی وصوبائی وزیربھی سراپابزدار ہیں۔کوئی داناآدمی اپنی ایک دوملین کی گاڑی کسی اناڑی ڈرائیور کے سپردنہیں کرتا مگر پاکستان کاسب سے بڑاصوبہ بزدار کے رحم وکرم پرچھوڑدیا گیا جوفرماتے ہیں میں توگورننس کا ہنرسیکھنے آیا ہوں ۔ایک طرف پنجاب کے منتظم اعلیٰ سردارعثمان بزدار ہیں جبکہ دوسری طرف چیف سیکرٹری کامنصب انتہائی زیرک اورپروفیشنل میجر (ر)اعظم سلیمان خان کے پاس ہے ۔
ہمارے ہاں آمروں کی آغوش میں پرورش پانیوالے نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں نے بھی بعد میں آمریت کوبہت براکہا ہے مگرپاکستان میں ہونیوالی ترقی آمروں کے دورمیں ہوئی جبکہ ہمارے ملک میں رائج سرمایہ دارانہ جمہوریت نے معیشت کیلئے زہرقاتل کاکام کیا۔گذشتہ چاردہائیوں میںچندسیاسی خاندانوں کے اثاثوں کاحجم بڑھتارہا جبکہ پاکستان مقروض اورمعاشی طورپرمفلوج ہوتاگیا۔پاکستان کے قومی وسائل میں باربار نقب لگائی گئی مگر نیب کے شکنجے میںہرچور نے اپنی بیگناہی کی دوہائی دی اورسیاسی انتقام کاماتم کیا ۔پاکستان میں کرپشن میں لتھڑے سیاستدانوں کااحتساب ہوا نہ آمروں کاٹرائل ہوا شایدآنیوالے دنوں میں بھی نہیں ہوگاکیونکہ سیاستدان پارلیمان جبکہ آمرطاقت کے پیچھے چھپ جاتے ہیں جبکہ نیب کودوسرے ریاستی اداروں کی طرف سے بھی بیجاتنقیدکاسامناکرناپڑتا ہے۔بے رحم احتساب کوریاست کی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا ہوگاورنہ قومی وسائل کی حفاظت کاحلف اوربیڑااٹھانیوالے سیاستدان قومی وسائل میں نقب لگاتے رہیں گے ۔ پاکستان میں رائج نام نہاد جمہوریت کاریموٹ سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے ،نااہل لوگ نام نہادجمہوری اورجھرلوانتخابی نظام کی آڑمیں ایوانوں میں آبیٹھتے ہیں پھر ان کے ہر ناقص فیصلے کی قیمت پاکستان اوراس کاعام آدمی اداکرتا ہے ۔پاکستان کے بااختیار طبقات ایک دوسرے کی” تعظیم ”اورایک دوسرے کو”تسلیم ”کرنے کیلئے تیار نہیں۔پاکستان ان کے دم سے چل رہا ہے ، متعددطبقات اس زعم یاوہم سے دوچار ہیں ۔پاکستان ایک شجر سایہ دارتھا مگر بدعنوانی اوربدانتظامی کی آکاس بیل نے اس کی ہریالی چھین لی اوراسے سایہ سے محروم کردیا۔ہمارے ہاں نظریات سے خالی سیاست نے ہماری ریاست کوپائیدارکرنے کی بجائے کمزورکیا ۔کرونا وباسے درپیش خطرات کے باوجود ہمارے سیاستدان معاملات کوسلجھانے کی بجائے الٹا الجھا تے چلے جارہے ہیں۔عوام کو کروناوباکی صورت میں انسان کی اپنی ایجادکی گئی ایک مصنوعی”آفت” کاسامنا ہے جبکہ حکمرانوں اوراپوزیشن کے حامی سیاستدانوں کے بیانات نے الٹاا نہیں کوفت کے سواکچھ نہیں دیا۔ حکمران یادرکھیں کروناوبا سے بچاﺅکیلئے” لاک ڈاﺅن” یقینا”کریک ڈاﺅن” سے بہتر ہے۔
تبدیلی سرکار کے دور میں وفاقی اورپنجاب کی صوبائی کابینہ میں کئی بار وزیرتبدیل ہو ئے مگر کپتان نے دھرنے کے دنوں میں کنٹینرسے تقریرکرتے ہوئے نظام کی تبدیلی کا جومژداسنایاتھا اس کادوردورتک کوئی نام ونشان نہیں ہے۔پاکستان میں نہیں مگرکپتان کے طرز سیاست میں ضرورتبدیلی آئی ہے اب وہ بھی اپنے پیشروحکمرانوں کی طرح امدادی سامان پراپنی تصاویرچھپوا کرمیڈیا کے روبرومستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔جوٹیم دوبرس میںتبدیلی کاخواب شرمندہ تعبیرکرنے میں ناکام رہی وہ مزید تین سال میں بھی کچھ نہیں کرسکتی۔محض ٹیم ممبرز کی پوزیشن بار بار تبدیل ہونے سے ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی ہوسکتا ہے کپتان بدلنا پاکستان کوراس اورپاکستانیوںکی حالت زارمیں کوئی سدھار آجائے ۔کوئی ایس ایچ او کرپشن کرے تواسے فوری معطل کردیاجاتاہے جبکہ وزیروں کے صرف قلمدان کی تبدیلی منافقت ہے،ان کااحتساب کون کرے گا۔عمران خان طوطاچشم ہیں ،مطلب براری کے بعدوہ اپنے کسی دیرینہ رفیق کی طرف پلٹ کرنہیں دیکھتے خواہ کسی نے ان کیلئے اپناسب کچھ قربان کردیا ہو۔پنجاب یونیورسٹی کے سابقہ طالبعلم رہنماءاورمنفرداسلوب کے کالم نگارحفیظ اللہ خان نیازی ،سعید اللہ خان نیازی اوردبنگ سیاستدان انعام اللہ خان نیازی کے بعد کپتان نے اپنے معتمد اورمستعد جہانگیرخان ترین کوجاتے ہوئے روکااورنہ پیچھے سے آواز دی تاہم کپتان کے پاس جہانگیرخان ترین اورعبدالعلیم خان کاکوئی متبادل نہیں ہے۔جہانگیر خان ترین نے کپتان سے قرب کی بہت بھاری قیمت چکائی بلکہ ہنوزچکارہے ہیں۔جہانگیر خان ترین نے عمران خان کی اقتدار تک رسائی یقینی بنا نے کیلئے اپنازراورپورازورلگایا اوراس ”دوستی” کے بدلے میں پی ٹی آئی کے اندر اورباہرسے ”دشمنی ”مول لی ۔ہرانسان کی طرح جہانگیر خان ترین میں خامیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگران کی شخصیت میں خوبیاں زیادہ ہیں۔جہانگیرخان ترین سے حسدکرنیوالے افراد کی بہت بڑی تعدادان کی کامیابی کامظہر ہے۔ کپتان کو قدم قدم پر جہانگیرخان ترین کی ضرورت پڑے گی ۔شاعروں کے کپتان منیرنیازی مرحوم کاایک شہرہ آفاق شعر پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان نیازی کی نذراورانہیں نصیحت کرتا ہوں وہ جہانگیرخان تر ین،سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ،حفیظ اللہ خان نیازی ،انعام اللہ خان نیازی ،عبدالعلیم خان اورمیاں اسلم اقبال سمیت مٹھی بھراپنوں کی قدرکریں ۔
ایک اوردریاکاسامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریاکے پاراتراتومیں نے دیکھا

اپنا تبصرہ بھیجیں