عہدحاضر میں اچھا ہمسایہ ملنا ایک نعمت اوراس کادم غنیمت ہے۔جہاں عداوت ہو وہاں سے ہجرت کرکے انسان اپنا پڑوسی بدل سکتاہے مگرکوئی ریاست اپنا ہمسایہ تبدیل نہیں کرسکتی لیکن سنجید گی سے مسلسل کوشش کرتے ہوئے دشمنی دوستی میں ضرور بدلی جاسکتی ہے ۔بھارت کی انتہاپسنداورمتعصب مودی سرکاربیشک پاکستان سے دوستی نہ کرے مگر اپنے مفلس عوام کااحساس محرومی ختم کرنے کیلئے دشمنی ترک کردے اوراپنے وسائل کارخ ”ہتھیاروں” کی بجائے اپنے ”ناداروں” کی طرف موڑدے جوسات دہائیوں سے بنیادی سہولیات کے منتظر ہیں۔انسان ہویاریاست عہدحاضر میں اچھا ہمسایہ ملنا بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔ پاکستان کیلئے جہاں چین کی صورت میں مخلص دوست اور قابل رشک ہمسایہ ہماری خوش نصیبی ہے وہاں بھارت سا منتقم مزاج ، ہٹ دھرم اورانتہاپسند پڑوسی یقینا اس کی قوت برداشت کاامتحان ہے۔بھارت کاکوئی ہمسایہ اس سے خوش نہیںہے ،پاکستان اورچین کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش، سری لنکا،نیپال اوربھوٹان بھی ڈسٹرب ہیںمگراس فہرست میں سے پاکستان اورچین کے سواکوئی ایٹمی طاقت نہیں۔پاکستان ایک خودمختاراور خوددار اسلامی ریاست ہے جوقیامت تک بھارت کی اطاعت نہیں کرسکتا،دوسری طرف بھارت کسی قیمت پرچین کاچین اورسکون نہیں چھین سکتا۔بھارت کی ہمسایوں سے دشمنی جبکہ سات سمندرپار امریکہ کے ساتھ نام نہاددوستی میں اس کیلئے سراسر گھاٹا ہے ۔ امریکہ اوراسرائیل ایک خاص ایجنڈے کے تحت بھارت کی پشت بان بنے ہوئے ہیں اوروہ نادان اس آشیرباد کے بل پر جنوبی ایشیاءکاتھانیداربنناچاہتا ہے مگر افواج پاکستان کے ہوتے ہوئے اس کایہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔پاکستان نام نہادسپرپاور امریکہ کوتھانیدار نہیں مانتا توبھارت کس کھیت کی مولی ہے ۔پاکستان اپنے پڑوسی بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیرینہ تنازعات کامذاکرات سے سدباب جبکہ برابری کی بنیادپرتعمیری تعلقات کاخواہاں اوراس کیلئے کوشاں رہا ہے مگر ہندوحکمران بار بارراہ فراراختیار کرتے رہے ہیں۔حقیقت میں بھارت کی” نابودی” کی ریکھا درندہ نمادریندر” مودی” کے ہاتھوں میں ہے،مودی کا اقتدار اور انڈیا کا ڈاﺅن فال ایک ساتھ شروع ہوا تھا ۔نفرت اورمنافقت کے علمبرداربھارت نے کئی بار پاکستان کیخلاف جارحیت کاارتکاب کیا اور درپردہ پاکستا ن میں دہشت گردی کوفروغ دیا۔پاکستان میں اسیربھارت کافوجی آفیسراورجاسوس کلبھوشن یادیواس کازندہ ثبوت ہے۔تاریخ کے اوراق بتارہے ہیںسقوط ڈھاکہ کی سازش کاماسٹر مائنڈ بھی بھارت تھا ۔پاکستان کی داخلی خودمختاری اور سا لمیت کیخلاف بھارت کے جارحانہ اورمذموم عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔انتہاپسندہندوحکمرا ن اپنے ملک سے مفلسی کی بجائے پاکستان کومٹانے کے درپے ہیں لیکن پاک فوج اوراس کے دبنگ سپہ سالار جنرل قمرجاویدباجوہ کے ہوتے ہوئے ہزارمودی بھی پاکستان کاکچھ نہیں بگاڑسکتے۔جس طرح بال ٹھاکرے پاکستان کیخلاف زہراگلتا اگلتاراکھ کاڈھیربن گیا اس طرح ایک دن مودی کی راکھ بھی گنگا میں سماجائے گی۔پاکستان کاوجود ایک زندہ حقیقت ہے ،اس کا ہر دشمن قصہ پارینہ بنتا رہے گا ۔ پاکستان کیلئے اشرافیہ یاسرمایہ داروں کی باندی جمہوریت نہیں بلکہ پاک فوج ناگزیر ہے ،ہماری مسلح افواج نے دفاع وطن کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں جبکہ عوام سے انتقام کانام جمہوریت ہے ۔پاک فوج کی ناقابل فراموش قربانیوں کے باوجودہمارے کچھ اپنے کوتاہ اندیش عناصر اس کے بجٹ اور کردارپرانگلیاں اٹھاتے ہیں۔پاک فوج پربیجاتنقید کے نشتر برسانے والے کسی گمراہ سیاستدان کے خاندان میںسے کسی کی قیام پاکستان اوردفاع پاکستان کیلئے کوئی قربانی نہیںہے،الٹا یہ بد زبان ریاستی اداروں پرزخم لگارہے ہیں۔پاکستان بنانے والے باپ دادا کے بیدارورثا ان سیاسی خاندانوں سے بیزاراورملک بچانے کی جدوجہد میں پاک فوج کی پشت پر کھڑے ہیں۔ افواج پاکستان کی قیادت کرتے ہوئے جنرل قمرجاویدباجوہ نے ہرقدم پراپنے منصب سے انصاف کیا ،ان کی ایکسٹینشن سے بھارت کے ایوانوں میں بیٹھے انتہاپسندہندوﺅں کاڈپریشن بڑھ گیا۔ جنرل قمرجاویدباجوہ ملک دشمن قوتوں کے اعصاب پرسوار ہیں ۔پاک فوج نے بھارت پرواضح کردیا ،اس کی ہرجارحیت کادندان شکن جواب دیاجائے گا ۔جنرل قمرجاویدباجوہ باتیں نہیں بناتے کیونکہ ا ن کاکام بولتا ہے۔جس دن جنرل قمرجاویدباجوہ کوپاک فوج کی کمانڈ ملی انہوں نے اس روز استحکام پاکستان کیلئے کمر کس لی تھی ۔آج پاک فوج جنرل قمرجاویدباجوہ کی قیادت میں مادروطن کے دفاع کیلئے پوری طرح متحد ،مستعد اورمنظم ہے۔ جنرل قمرجاویدباجوہ مادروطن کیخلاف اندرونی وبیرونی سازشوں کوناکا م بنانے کیلئے کمربستہ ہیں۔پاکستان کوانڈراسٹیمیٹ کرنیوالی قوتوں کاہماری منتخب سیاسی اوردفاعی قیادت کے درمیان مثالی انڈراسٹینڈنگ دیکھتے ہوئے پریشان اورمایوس ہونافطری امر ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ کی حالیہ تقرری کپتان کااب تک واحددرست اوردوررس فیصلہ ہے۔آئی ایس پی آر کی” اُٹھان” اور”اُڑان” کاکریڈٹ بھی لیفٹیننٹ (ر) عاصم سلیم باجوہ کوجاتا ہے ۔ آئی ایس پی آرکے سابقہ پروفیشنل اورزیرک ڈی جی لیفٹیننٹ (ر) عاصم سلیم باجوہ کاوزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کی حیثیت سے تقررخوش آئند ہے،وہ اس منصب کیلئے بہت موزوں،موثراورمستعدشخصیت ہیں۔وہ منتخب حکومت کی ترجمان کی حیثیت سے اپنافرض منصبی احسن انداز سے انجام دیںگے،ڈی جی آئی ایس پی آر کی حیثیت سے ان کاتجربہ ان کے بہت کام آئے گا ۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ بجاطورپر ریاست،حکومت اورصحافت کے درمیان ایک پائیدارپل کاکرداراداکریں گے۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ یقینا وزیراعظم عمران خان اورعوام کے اعتماد پوپوراتریں گے۔ حکومت پاکستان کولیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی صورت میں ایک غیرمتنازعہ، سنجیدہ، تجربہ کار ،کہنہ مشق اورمستعد ترجمان کی ضرورت تھی ،وزیراعظم عمران خان کایہ مستحسن فیصلہ سچے پاکستانیوں کیلئے تازہ ہواکاجھونکا ہے۔بار باروزیراطلاعات تبدیل کرنے کے باوجودتبدیلی سرکار کاشعبہ اطلاعات بہت کمزورتھا مگر خوش گفتار لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی تقرری کے بعدیقینا اس شعبہ کی کایا پلٹ جائے گی۔بحیثیت چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے گرانقدرخدمات انجام دی ہیں ، فوج کے دوران بھی کئی اہم محاذوں پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی وطن عزیز اوراپنے ادارے کے ساتھ کمٹمنٹ،پیشہ ورانہ قابلیت اورخدادادصلاحیت کے جوہردیکھے گئے ۔ وزیراعظم عمران خان کی ٹیم میں پروفیشنل شخصیات کے آنے سے وفاقی حکومت کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئے گی ۔ان دنوں کچھ شرپسندعناصرسوشل میڈیا پرجوسابقہ فوجی حکام کے نام ومقام والی ایک فہرست وائرل کررہے ہیںان کے پیچھے ایک مایوس سیاسی جماعت ہے ۔پاکستان کوپروفیشنل ازم کی اشد ضرورت ہے اورہمارے بیشتراہل سیاست اس صلاحیت سے محروم ہیں ۔1985ءسے اب تک منتخب حکمرانوں اوران کے معتمدوزیرو ں مشیروں کی کارکردگی سب نے دیکھ لی ،آئی ایس پی آر کے کام کامداح توبھارت بھی ہے۔بھارت کے پاس بڑے حجم والی فوج ہے مگر اس کے پاس آئی ایس پی آرکاکوئی توڑ نہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے بھی ڈی جی آئی ایس پی آرکی حیثیت سے قابل قدراورقابل فخرخدمات انجام د یتے ہوئے بھارت کوبدحواس کردیاتھا اب میجر جنرل بابرافتخار بحیثیت ڈی جی آئی ایس پی آرپاکستانیوںکاسرمایہ افتخار ہیں۔
جوپاک فوج کی مراعات پرتنقیدکرتے ہیں وہ سیاسی قیادت کی مراعات،قومی وسائل کی بندربانٹ اورتعمیراتی منصوبوں کے نام پرمالی مفادات کی وصولی کیوں بھول جاتے ہیں ۔جوکوئی مادروطن کے جانثاراور وفادارمحافظ کو تنخواہ دار”ملازم” کہتا ہے وہ میرے نزدیک دماغی مرض سے دوچار ”ملزم” بلکہ قومی مجرم ہے۔ مادروطن اورہم وطنوں کی حفاظت کرتے ہوئے دشمن کومارنایامقابلہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنا”ملازمت” نہیں ہوسکتی،بلاشبہ یہ جارحیت کیخلاف مزاحمت بلکہ ایک مقدس عبادت اورسعادت ہے۔محض ”پیسہ ”کسی انسان کوفوج کاخطرناک”پیشہ ”اختیارکرنے پرآمادہ نہیں کرسکتا ۔مادروطن کی محبت میں گرفتاراوراس کی حفاظت پرمامورجوانوں کے صادق جذبوں کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔کوئی معاشرہ یاملک کسی شہید کے خون کی ایک بوند کامعاوضہ ادانہیں کرسکتا۔ایک طرف پاکستان اورپاکستانیوں کے وردی پوش محافظ اوردوسری طرف اپنی شناخت ظاہرکئے بغیر ہرشرکامقابلہ کرنے اور شرپسندوں کوشکست دینے والے آئی ایس آئی کے پراسرار اورشوق شہادت سے سرشارقابل رشک کردار ہمارے” خادم یاملازم” نہیں بلکہ”محبوب اور محسن” ہیں۔پاکستان کے ساتھ ان نڈرمحافظوں کا” تنخواہ” نہیں ”وفا”کارشتہ ہے،ہمارے باوفااورباصفامحافظ راہ حق پرگامزن ہیں۔ پاک فوج کے سرفروش جانبازہوں ،ڈینجرز کامقابلہ کرنیوالے رینجرزیاپولیس کے فرض شناس جوان یہ ہمارے اپنے اورہم ان کے مقروض ہیں،کسی اہلکارکامتنازعہ انفرادی فعل قابل نفرت یاقابل گرفت ہوسکتا ہے لیکن ان اداروںکی مجموعی کارکردگی انتہائی شانداراورتابناک ہے ۔ فوج،رینجرز اورپولیس کی وردیوں کے رنگ ضرور مختلف ہیں مگرہمارے سرفروش جوانوں کے جوش سے ابلتے خون کارنگ سرخ جبکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں سبزہلالی پرچم تھاماہوا ہے ۔ان کیلئے ریاست پاکستان محض وطن نہیں بلکہ ایک جنون اوران کی جنت ہے۔ ہمارے جانباز محافظ دشمن کاصفایاکرنے کیلئے بیقرار اورشیرخداحضرت علی ؓ کی تلوارہیں۔ پاکستان سے عشق ان کی رگ رگ میں خون بن کردوڑتا ہے،یہ عشاق شہادت کے مشتاق ہیں ۔پاکستان اورافواج پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت ہماری رگ رگ میں خون بن کردوڑتی ہے اوریہ عشق قبرتک ہمارے ساتھ جائے گا۔پاک فوج اس محبوب کی طرح ہے جس کو عوام دیوانہ وارچاہتے ہیں۔ سکیورٹی فورسزمیں لوگ” اعزازیہ” کیلئے نہیں آتے بلکہ وردی پہنے ہوئے اپنے خون سے دہشت گردی کے شعلے بجھانااوروطن پرستی کے چراغ جلانا ان کابیش قیمت ”اعزاز”اور”اعجاز” ہے،یہ اعزازہرگز”اعزازیہ” کامحتاج نہیں ہوسکتا۔ مادروطن پاکستان کادفاع کرتے ہوئے دشمن کودھول چٹانااور میدان جنگ میں جوانمردی سے جام شہادت نوش کرنا ایک بیش قیمت سعادت اور مقبول عبادت ہے۔پاکستان کی سا لمیت کوپچھلی سات دہائیوں سے ایک منافق اورفاسق دشمن سے خطرات درپیش ہیں۔اس دشمن کواپنے بڑے حجم کازعم ہے،پاک فوج نے ماضی میں بھی دشمن کے اس زعم کواس کازخم بنا یا اورہرمیدان میں ا سے پچھاڑاتھا ۔ پولیس فورس میں پروفیشنل،بردبار اورپرعزم پولیس آفیسر محمدطاہرجوبزدار کے پنجا ب میں ایک ماہ آئی جی پنجاب رہے پھرتبدیلی سرکار نہیں پنجاب پولیس کوتختہ مشق بناتے ہوئے انہیں تبدیل کردیاتھا،پنجاب میں تھانہ کلچر کی حقیقی تبدیلی کیلئے محمدطاہر کی بحیثیت آئی جی تقرری ناگزیر ہے،اس کیلئے محمدطاہر کو تین برس کامینڈیٹ دیاجائے۔ پولیس فورس میں فرض شناس ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصر،نڈراورسمارٹ ڈی آئی جی اشفاق احمدخان ،سراپااخلاص اورانتھک محمدنویدایس ایس پی اور مادروطن کے جانثار”عبادت نثار”سے فرض شناس آفیسر بھی ہیں ۔
مادروطن سے محبت کاقرض چکاتے ہوئے شہادت ہرکسی کونصیب نہیں ہوتی بلکہ قدرت کے منتخب اور محبوب افرادکویہ مقام ملتا ہے۔ 4اگست 2019ءکولاہوراورپنجاب سمیت چاروں صوبوں میں پولیس کے زیراہتمام یوم شہداءبھرپور جوش وجذبہ اورعقیدت کے ساتھ منایاگیا ۔ ہرشہرمیںپروقارتقریبات منعقدکی گئیں ،جہاں پاک فوج،پنجاب پولیس کے آفیسرز،شہداءکے ورثا، اہل صحافت اوراہل سیاست سمیت معاشرے کے مختلف طبقات سے نمایاں لوگ شریک ہوئے ۔پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمرجاویدباجوہ نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں قیام امن کیلئے پولیس کے” شہدائ” کے تعمیری کردارکی” شہادت” دی اوران کی قربانیوں کوسراہا۔ آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ کی ”شاباش” پولیس فورس کے سرفروش جوانوں، شہیدوں اورغمزدہ یتیموں سمیت ورثا کیلئے سرمایہ افتخار ہے ۔شہرلاہور کے سابقہ مستعد ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان کی خصوصی دعوت پرراقم بھی الحمراءہال لاہور میں پولیس شہداءکی پروقارتقریب میں شریک ہواجہاں پنجاب پولیس کے سابق نیک نام آئی جی، باریش اوردرویش حاجی حبیب الرحمن سے ملاقات ہوئی ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد حاجی حبیب الرحمن کازیادہ تر وقت حجازمقدس کی پرنور فضاﺅں میں اور بغداد کے مقدس مزارات پرگزرتا ہے ،نیک نیت اورنیک سیرت حاجی حبیب الرحمن کی قیادت میں پنجاب پولیس نے ٹیک آف کیا تھامگران کے بعد آنیوالے ایک آئی جی نے جو اپنے ادارے کوفعال اور جوانوں کوزورآوربنانے کی بجائے خود مراعات کا”مشتاق ”رہا ،اس نے پنجاب پولیس کی وردی کارنگ بدل کرفورس کامورال گرادیا۔پنجاب کے سواباقی صوبوں میں پولیس والے آج بھی پرانا یونیفارم پہنتے ہیں جوان پرجچتاہے جبکہ ایک سرمایہ دار کی ”منشائ” سے پنجاب پولیس تختہ مشق بن کررہ گئی تھی۔ لاہور کے سابق زیرک سی سی پی او بی اے ناصر نے پولیس کلچر کی مثبت تبدیلی کیلئے دوررس اصلاحات پرمبنی کتاب لکھی جوارباب اقتدار کی اوپروالی منزل کے اوپرسے گزرگئی ۔ راقم نے شہداءپولیس کے ورثا کیلئے ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصر اورڈی آئی جی اشفاق احمدخان کو نجات دہندہ اورمسیحا کے روپ میں دیکھا ۔فوج اورپولیس سمیت سکیورٹی فورسز کے شہداءکی یادیں تازہ اوران کے ورثا کی اشک شوئی کرنا معاشرے کی زندہ ہونے کی علامت اورضمانت ہے ۔لاہورپولیس کے کمانڈر کی حیثیت سے بی اے ناصر کی خدمات جبکہ ان کی خصوصی ہدایات پر پولیس اہلکاروں سمیت شہداءپولیس کے پسماندگان کی فلاح وبہبود کیلئے ڈی آئی جی اشفاق احمدخان کی دوررس اصلاحات اوران کے ثمرات کوفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بی اے ناصر،اشفاق احمدخان اورمحمدنوید کو شہرلاہورمیں قدم قدم پرایک نیا چیلنج درپیش رہا،انہوں نے امن وامان برقراررکھنے کیلئے اپنے آفیسرزاورجوانوں سے بھرپورکام لیا۔اعصاب شکن صورتحال میں بھی انتھک اورپروفیشنل ڈی آئی جی اشفاق احمدخان کے ماتھے پر کبھی شکن نہیں آئی تھی،انہوں نے لاہورائیرپورٹ پرہونیوالے قتل کے بعد گرفتارقاتل کومارنے کیلئے گھات لگائے بیٹھے متعدد مسلح افراد کوگرفتارکیااورانسداددہشت گردی عدالت کے باہرقتل عام کامنصوبہ ناکام بنایا،اس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمدخان نے گذشتہ برس ماہ محرم کے دوران شہرلاہورکوایک بڑے فرقہ ورانہ خونی تصادم سے بچایا۔لاہورمیں مذہبی ،سیاسی ،سماجی اورتفریحی سرگرمیوں کے پرامن انعقادکاکریڈٹ لاہور کے سابقہ سمارٹ سی سی پی او بی اے ناصراورمستعد ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان کوجاتا ہے ،ان دونوں کوگرانقدر خدمات اورتھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے دوررس اصلاحات کے انعام یاپھرانتقام کے طورپر اچانک ہٹادیا گیا تھا لیکن ا نہیں ہٹانے کے بعد لاہورمیں پی آئی سی کاسانحہ رونماہوا جس نے لاہورپولیس کوکٹہرے میں کھڑا کردیا ۔میرے نزدیک بی اے ناصر ،اشفاق احمدخان اورمحمدنوید کی تبدیلی” انتظامی” نہیں ”انتقامی” اقدام تھا ۔یقینا ان انتھک آفیسرزکو”کام،کام اورکام” کرنے کی سزادی گئی،ظاہرہے اس طرح کے پروفیشنل آفیسرز کے اس” انجام” کے بعدکون اورکیوں کام کر ے گا۔
4اگست کوپولیس کے یوم شہداءکی تقریب کے سٹیج پرشہداءکی دوماﺅں کے سوا زیادہ تر مہمان اداکاربراجمان تھے جبکہ حاجی حبیب الرحمن سمیت سابق آئی جی حضرات کوپنڈال میں بٹھایاگیا تھا حالانکہ ان کیلئے بھی کشادہ اورخالی سٹیج پر انتظام کیاجاسکتا تھا ۔اگرآج پولیس حکام اپنے سابقہ سینئرز کو عزت دیں گے توآنیوالے دنوں میں یقیناانہیں بھی عزت ملے گی کیونکہ انسان جوبوتاہے وہی کاٹتا ہے ۔تقریب کے دوران شہداءکیلئے ایک منٹ کی خاموشی ناقابل فہم تھی ،مخصوص مائنڈسیٹ کے حامل مگرمٹھی بھرلوگ ہمارے اسلامی معاشرے میں اموات کاسوگ منانے کیلئے موم بتی اور”خاموشی” والے مغربی کلچر کوفروغ دیناچاہتے ہیں ،وہ یادرکھیںشہرخموشاں والے اپنے درجات کی بلندی کیلئے ہماری” خاموشی” نہیں بلکہ دعاﺅں اوروفاﺅں کے منتظر ہوتے ہیں۔تقریب کے اختتام پر شہداءکے بلندی درجات کیلئے تلاوت قرآن مجید اوراجتماعی دعابھی کی گئی تاہم ایک منٹ کی خاموشی کاکوئی جواز نہیں تھا۔لاہور کے سابقہ متحرک سی ٹی او کیپٹن (ر)لیاقت علی ملک کے انداز گفتگوسے ان کی ” لیاقت” اور جذبوں کی” صداقت” جھلک رہی تھی ۔ باذوق لیاقت علی ملک نے دوران گفتگوجو معیاری اشعار استعمال کئے انہیں بھی بہت سراہاگیا ۔
پاکستان اورافواج پاکستان سمیت سکیورٹی فورسز سے محبت ہماری شروع سے عادت اورعبادت ہے۔میں آئی ایس کی قابل رشک کامیابیوں اورقربانیوں کی کہانیاں سن سن کربڑاہوا ہوں۔امن اور دفاع وطن کیلئے اپنے خون سے مشعل روشن اور جام شہادت نوش کرنیوالے ہمارے ہیروہیں۔سلیقے سے پہنی وردی میں چاک وچوبند، فرض شناس ،سرفروش آفیسرز اوراہلکار ہمار ے محبوب ہیں۔یہ جانبازہروقت مادروطن اورہم وطنوں کی حفاظت کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے کیلئے تیار بلکہ انتظارمیںہوتے ہیں۔مجھے وردی سے عشق ہے کیونکہ میں بچپن سے اپنوں کووردی میں دیکھتاآیاہوں ۔ہماری” موج” ہماری” فوج” کے دم سے ہے،یہ سچے پاکستانیوں کامان اورایمان ہے۔راقم کے اس دعویٰ پرجس کسی کوشبہ ہووہ فلسطینی ،شامی اورکشمیری بھائیوں کی حالت زارضرور دیکھے ۔ہمارے قابل رشک” اداروں” کیخلاف زہراگلنے والے معاشرے کے متنازعہ اورمسترد کرداراپنے ناپاک ” ارادوں” کوچھپانے میں ناکام رہے ۔اپنے وطن دشمن طرزسیاست کے سبب ”آشکار” ہونیوالے عوام کے انتقام کا”شکار”اورآئندہ بھی انتخابات میں ناکام ونامرادہوتے رہیںگے۔
Load/Hide Comments