اوسی ڈی؛ ایک اضطراری کیفیت؛ تحریر: ڈاکٹر انعم پری

لوگ اور لوگوں سے جڑی کہانیاں بی کبھی کبھی بے انتہا مختلف ہوتی ہیں ہم جس طرح اک انسان کو سکون میں ، خود میں بہترین پاتے ہیں، وہ اس طرح سے نہیں ہوتا،، اللہ پاک بڑا منصف ہے ہم سب کی زندگیوں میں ہر انسان وقتا فوقتاً الگ الگ قسم کی جنگ لڑ رہا ہے- میں اک سائکائٹرسٹ ہوں لوگوں کی سائیکولوجی پڑھنا میرا شعبہ ہی نہیں میرا ہنر بھی ہے ، شوق بھی ہے اور میرے دِل میں موجود دَرْد اور ہمدردی کی چاہ کا ثبوت بھی !
جس طرح ہر انسان کی فطرت اک دوسرے سے الگ ہوتی ہے اسی طرح ہر ہر انسان كے سوچنے کی صلاحیت اور اس کی زندگی میں اس پہ گزرے حالت و واقعات كے بَعْد اسکے اندر ابھرنے والے احساس اور انکا اثرات كے زیر نظر ذہن كے انتیشاری حالات بھی منفرد اور الگ ہوتے ہیں- میں شاید ہمیشہ سب مریضوں کو اک ڈاکٹر کی حیثیت سے ہی دیکھتا اور مدد کرتا آیا ہوں مجھے پہلے بھی لگتا تھا كہ ہماری عوام میں آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر(Obsessive Compulsive Disorder) جو كے ذہن پہ چھا جانے والا اضطراری عارضہ ہے اسکی شرح بہت فیصد بڑھ گئی ہے لیکن افسوس صد افسوس ہم اِس بات کو بہت جلدی قابو نہیں کر سکے – اِس میں مریض چار، پانچ طرح سے آپکے سامنے آسکتا ہے-
کچھ لوگوں کو بہت زیادہ صفائی کی عادت ہو جاتی ہے وہ اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد موجود ہر چیز کو بے حد اور بے انتہا صاف رکھنا چاھتے ہیں -انہیں ہر وقت جراثیم کا دھڑکا لگا رہتا ہے وہ چاہ کر بھی اپنے آپکو یا اپنے ذہن کو اِس سے آزادی نہیں دے پاتے اور اگر وہ بار بار ہاتھ نہ دھوئیں تو ان کے پورے ذہن اور جسم پہ بےچینی کی عجب کیفیت اثر انداز ہوتی ہے- اِس سے ان کے رشتے بھی اثر انداز ہوتے ہیں-
دوسری قسم یہ بھی ہے كے یہی لوگ بات بات پہ شک کرنے یا اپنے ہی کیے ہوئے کام کا بار بار جائزہ لینے پہ مجبور ہو جاتے ہیں جیسے كے مثال کے طور پہ کیا میں نے دروازے کی کنڈی لگا دی ، کیا میں نے اپنی چیزیں صحیح سے الماری میں رکھی تھیں وغیرہ-
تیسری قسم میں کچھ ایسے مریض بھی دیکھے گئے ہیں جنہیں اپنی تمام پرانی چیزوں کو ذخیرہ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے- وہ اپنی پرانی استعمال کی ہوئی چیزیں یا کپڑے وغیرہ لوگوں کو دینے یا پھینکنے یا ضائع کرنے سے بے حد خوف زدہ رہتے ہیں-
چوتھی قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو كہ بہت زیادہ پرفیکشنیسٹ ہوجاتے ہیں- مکمل، یعنی كے جنہیں اپنے کام میں غلطی سے انتہائی خوف ہوتا ہے- وہ ضرورت سے زیادہ چاقو چوبند رہنے لگتے ہیں اور اِس طرح سے اپنا سکون اور ذہنی نشوما کو بری طرح اثر انداز کرتے ہیں-
اِس میں اک قسم ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں آنے والے دنوں سے خوف آتا ہے- انکا ذہن ہر وقت سوچوں کا گھر بنا رہتا ہے،، جنہیں اکثر خوف آتا ہے كے انہیں سزا دے دی جائے گی یا ان سے کچھ چھن جائے گا-
آپ اپنے ارد گرد ایسے کسی بھی شخص کو دیکھیں تو برائے مہربانی اسکی مدد کریں- اسے نا گذیر نہ جانیں بلکہ ان کی اپنی نارمل عام زندگی کی طرف لوٹ آنے میں مدد کریں، اور ایسا آپ بلکل کر سکتے ہیں- میں یہ نہیں کہہ رہا كہ ان لوگوں کو آپ ڈاکٹرز کے پاس نہ لے کر جائیں بلکہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں كہ یہ بیماری صرف ذہنی انتشار ہے اور جو اکثر لوگوں میں،یا گھروں میں یا انکی زندگی میں پھیلے ہوئے بہت سے منتشر مشکلات اور حالات کا نتیجہ ہوتا ہے جسے صرف اور صرف اپنی فیملی کی سپورٹ اور اپنوں کا ساتھ دور کر سکتا ہے-
میں نے اکثر دیکھا ہے كے ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں تنقید کا نشانہ بنتے ہیں- میرے پاس آنے والے اکثر و بیشتر مریضوں نے اِس بات سے بھی احتجاج کیا كہ ہر کوئی ان کو بنا انکا مسئلہ جانے صرف اور صرف مشوروں سے نوازتا ہے جیسے كہ اگر کوئی ہاتھ زیادہ دھوتا ہے اور صفائی پسند ہے تو وہ تو تعریف كے قابل بھی ہے اِس میں کوئی خاص برائی نہیں حدیث میں آتا ہے كہ ” صفائی نصف ایمان ہے ” اِس میں ان کو برا بھلا کہنا یا مذاق میں ان کے نازک دلوں کو توڑنا انتہائی ناگزیر عمل ہے کوئی بھی انسان یقین دہانی كے ساتھ اِس ذہنی اضطراری کیفیت سے باہر آسکتا ہے -آپ انہیں بار بار یہ یقین دلائیں كے تمھارا مسئلہ مجھے سمجھ آتا ہے اور آہستہ آہستہ تم ان سب پریشانیوں سے باہر آجاؤ گے اِس طرح سے انکا ساتھ نبھائیں-
یہ کورونا وائرس سے آئی ہوئی تبدیلی كے باعث میں سمجھتا ہوں كہ ہر گھر میں ڈراور خوف کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں اک یا دو لوگ ایسے ضرور ہوں سکتے ہیں جو كہ اِس بیماری كے بارے میں بتائی گئی پہلی قسم كے حامل ہو جائیں اِس لیے اپنے ارد گرد کا خیال رکھیں-
مسئلے کو حَل کرنے اورایسے لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے خدارا بار بار اسی بات کا ذکر کرنے ، اسی بات کو لے کر ان پہ دین و دنیا كے لیکچر جھاڑنے اور لوگوں كے سامنے انکی اِس عادت کا اشتہار لگانے سے سخت پرہیز کریں-
اِس ذہنی انتشار میں مبتلا انسان عام طور پہ انتہائی صاف گو ، نرم دِل اور شدید حساس لوگ ہوتے- انہیں آپکے پیار اور ساتھ کی ضرورت ہے آپکا 10سیکنڈ پہ مبتلا کوئی بھی معمولی سا عمل ، جملہ یا تنقید ان کے باقی دن كے چھیاسی ہزارتین سو نوے سیکنڈ کو برباد کر سکتی ہے-
ایسے حساس لوگوں کا خاص خیال رکھیں- انہیں چھوٹی بری ٹینشنز اور انکی ناپسندیدہ باتوں سے دور رکھیں اور دلوں کو توڑنا نہیں جوڑنا سیکھیں اللہ تعلی ہم تمام ڈاکٹرز اور کسی بھی بیماری میں مبتلا مریضوں كے گھر والوں کو انکا ساتھ دینے اور شفاء کا باعث بننے کی توفیق دیں- آمین ثم آمین !

اپنا تبصرہ بھیجیں