دنیا کی سب سے بڑی گیم، کبھی مثبت کبھی منفی، تحریر: ثناء آغا خان

دنیا پرراج کرنے والی اشرافیہ یاعالمی اسٹیبلشمنٹ کے چندطاقتورافراد اپنے دنیاوی مفادات کیلئے انسان کے جذبات واحساسات سے کھیلتے ہیں اور کھیلتے ہوئے اس کی بیش قیمت زندگی تک کوبھی داﺅپرلگانے سے گریز نہیں کرتے۔دنیا میں بہت کچھ مصنوعی ہے ،چاندپرپہنچنا بھی جھوٹ کے سواکچھ نہ تھامگردنیا کوکئی برسوں تک بیوقوف بنایاگیا۔اس طرح کے جال بچھانے والے اپنے ایجنڈے کیلئے انسانوں کے گلے میں پھندے ڈال دیتے ہیں اورانہیں روک دیاجاتا ہے کہ خبردار چیخنا نہیں ورنہ تمہارے چیتھڑے اڑادیے جائیں گے۔
دنیا کی سب سے بڑی گیم کبھی negative کبھی positive کیوں کھیلی جارہی ہے ؟ کس بات کی پردہ پوشی ہے ؟اس گیم کا ماسٹر مائنڈ کون ہے ؟پوری دنیا کو کئی مہینوں تک ذہنی طور پر یرغمال بنایا گیا اس کے پیچھے کیا سازش تھی کیا راز تھا ؟ بہت سے سوالات انسانوں کے ا ذہان کو ماﺅف کر رہے ہیں جب سے یہ سنا کہ تنزانیہ کے صدر جان میگوفولی نے امپورٹڈ کورونیوئرس ٹیسٹنگ کٹس کو ناقص قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ وہ ایک بکری اور پپیتا سے حاصل کئے گئے نمونوں کے بھی مثبت نتائج تھمادیے گئے ۔ ماگوفولی نے یہ ریمارکس اتوار کے روز شمال مغربی تنزانیہ میں chato میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے د یے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیسٹوں کے ساتھ “تکنیکی مسئلہ” ہے۔ اس حکومت نے پہلے بہی coronavirus کی وبا کے بارے میں کچھ گڑبڑ ہونے پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تنزانیہ کی سکیورٹی فورسز کو ہدایات دی ہیں کہ وہ فوری طورپرکروناٹیسٹ کیلئے مخصوص کٹس کی کوالٹی چیک کریں۔ اب ہر طرف سے یہ آوازیں اٹھناشروع ہوگئی ہیں کہ کبھی ٹیسٹ positive اور negative آ رہا ہے۔زیادہ دور نہیں جاو¿ں گی میرے ہی کچھ احباب ہے جنہوں نے تین چار دفعہ ٹیسٹ کروایا اور جس میں سے کچھ ٹیسٹ Negative اور کچھ positive آئے۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ سب آپس میںسرجوڑیں اور سوچ بچارکریں کہ کیا یہ سوالات ایسے ہی سوالیہ نشان بن کر اپنا دم توڑ دیں گے انسان کی سوچ بڑے سے بڑے مسئلہ کاکوئی نہ کوئی پائیدار حل نکال سکتی ہے۔تنزانیہ کے صدر نے کرونا وائرس کوعالمی ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے ۔ان کے کسی سوال کورد نہیں کیاجاسکتا۔پچھلے دنوں روس کے صدر نے بھی کچھ اس قسم کے خیالات کااظہارکیاتھا۔طبی ماہرین آگے بڑھ کران سنجیدہ سوالات کے اطمینان بخش جوابات تلاش کریں اورمجھ سے طالبعلموں کی علمی پیاس بجھانے کااہتمام کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں