ہمت مرداں مددخدا، تحریر: ثناء آغا خان

اس بار جب سب اپنی اپنی ماؤں کے ساتھ یوم مادر کی خوشیاں بانٹ رہے تھے کچھ لوگ اپنوں سے دور قرنطینہ وارڈز میں کرونا وائرس کے شکنجے سے اپنی زندگی چھین رہے تھے۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی خوشی اور غمی میں سب سے پہلے اپنی ماں کو پکارتے اوراس کاشفیق ومہربان وجودڈھونڈتے ہیں اور جب بات آئے یوم مادر کی تو بہت سے لوگ حد سے زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی آنکھوں دیکھی تڑپ جن کیلئے شاید میرے پاس الفاظ موجود نہیں پر پھر بھی اپنے جذبات واحساسات سپردقرطاس کرنے کی سعی کروں گی۔ نفیس صاحب کی آپ بیتی جن سے تقریبا ًہرروز میری ویڈیو کال پر بات ہوتی تھی،ان کا احوال بھی کسی مچلتے ہوئے بچے جیسا تھا جس کو اپنی ماں سے بہت زیادہ محبت ہے۔ آج ماشاءاللہ اپنے خاندان میں موجود ہیں ان کے مطابق وہ کبھی نہیں بھول سکتے اس ایمبولنس کا سائرن جو ان کی کرونا وائرس رپورٹ پازیٹو آنے کے بعد ان کے دروازے کے باہر کھڑی تھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ خود کو سمجھاوں کہ اپنے گھر والوں کوحوصلہ دوں کیونکہ ایک عجیب سی کشمکش ذہن اور دل کو بند کیے جا رہی تھی ڈر اور خوف کے ملے جلے تاثرات میں ذہن کو ماﺅف کردیا تھا، ہمت نہیں تھی کہ کس اپنے کی نظر کے ساتھ نظر ملا ﺅں اور اس کوکسی طرح سمجھا پاوں بس بوجھل قدمو ں کے ساتھ چلتاہوا اس ایمبولینس میں جاکر بیٹھ گیا۔اس ایمبولینس کا ٹمپریچر بہت کم تھا اور ایسا محسوس ہوا جیسے راستے میں ہی میرا دم گھٹ جائے گا تقریبا 45 منٹ کے بعد ایمبولینس رک گئی اور مجھے PKLI ہسپتال اتارا گیا جہاں ہمارے ادارہ City42 کی طرف سے پہلے ہی سارے انتظامات کئے گئے تھے ۔
ایک اور بہت ہی اہم بات ضرور کہوں گی کہ جو لوگ بھی سٹی 42 اور محسن نقوی صاحب کے بارے میں غلط پراپیگنڈا پھیلا رہے ہیں اور اس پلیٹ فارم کے بارے میں دوسروں کوگمراہ کر رہے ہیں ان سب کو ایک بات ضرور کہوں گی کہ اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہے اس مشکل وقت میں تو اس کا ساتھ دیں آج کرونا وائرس پوری دنیا کیلئے دردسر ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اس سے اپنی اوراپنوں کی جان کس طرح چھڑا سکتے ہیں۔ برادرم نفیس کے مطابق تقریباً روزانہ ہی محسن نقوی صاحب کی ان سے بات ہوتی تھی اوروہ نہایت شفقت اوراپنائیت سے ان کا حال احوال بھی دریافت کرتے تھے یہاں تک کہ ان پر اور تمام ملازمین پر ہونے والے اخراجات انہوں نے اپنی جیب سے اداکئے ،ان کی اس خوبی کو سراہنا ہمارافرض ہے ۔برادرم نفیس کے مطابق زندگی کا سب سے کٹھن دور وہ ہسپتال کے 15روز تھے ،جو شاید ان کی پوری زندگی کیلئے ایک تلخ تجربہ ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک ڈر کی بیماری ہے جس میں انسان کو مختلف قسم کے ڈر اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ابھی اس بیماری کا کوئی مستندعلاج دریافت نہیں ہوابس اپنوں کی دعائیں اور انسان کی اپنی ہمت اس کو اس بیماری پرغلبہ پانے کی ہمت دیتی ہے۔آپ ایک وبائی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں یہ ڈر اور خوف ایک طرف اور آپ کے اپنے جو آپ پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں ان سے وابستہ احساس آپ کو اندر ہی اندر ختم کئے جاتا ہے۔ماں باپ کا کیا بنے گا بیوی کیا سوچ رہی ہوگی بہن بھائی، رشتہ دار سب اس بیماری کا سن کر کس طرح کا تاثر دیں گے، یہ سب وہ اذیتناک سوالات تھے جن کو سوچ سوچ کر ایک مریض جو اپنی بیماری کی جنگ بھی لڑ رہا ہو کس طرح باآسانی جیت سکتا ہے۔پر کچھ لوگ اللہ تعالیٰ نے زمین پر دوسروں کی ہمت اور حوصلہ بڑھانے کیلئے پیدا کئے ہوتے ہیں۔برادرم نفیس بھی ان میں سے ایک ہیں جب بھی ان سے ویڈیو کال پر بات ہوتی تو کوئی نہ کوئی مزاح کی بات کرکے یہ احساس دلاتے تھے جیسے انہیں کوئی تکلیف نہیں بلکہ اکثر میں نے دیکھا کہ انہوں نے ہسپتال میں جاکر وہاں کاسکوت توڑ دیا تھا ۔جو لوگ ڈپریشن اورذہنی دباﺅکا شکار تھے انہیں احساس دلایا کہ انہوں نے جینا ہے۔ روتی آنکھوں کے آنسو پونچھ کر اپنے اردگرد کے ماحول کو خوشگوار بنا رکھا تھا ۔یہاں تک کہ جب واپسی کا وقت آنے والا تھا تو سب یہی کہہ رہے تھے کہ اگر آپ چلے گئے تو ہم اس ماحول میں کس طرح رہیں گے ۔اللہ تعالیٰ تمام کرونا وائرس کے مریضوں کو جلد صحت یاب کرکے انہیں ان کے اپنوں سے ملادے۔ آمین
برادرم نفیس کے مطابق جب میں ہسپتال گیا تھا تو بہت خوفزدہ تھا مگر پھر میں نے اپنے آپ کو سمجھایا اور اپنے اندر بکھری پڑی ہمت سمیٹ کر یکجاکی کہ میرے ساتھ اور بہت سی زندگیاں منسلک ہیں بس اسی ہمت اور حوصلے نے انہیں جلد صحت یاب کر دیا ۔ہسپتال کی بہت سی ڈراﺅنی یادیں وہ کھڑکی جہاں سے باہر دور ایک درخت اپنے سائے میں بہت سے پرندوں کو سمیٹے ہوئے ان کی ہمت اور عزم کو اور بڑھا دیتا تھا یہ ہمت اور حوصلہ ہی تھا جو اس لڑائی میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار بنا۔ اللہ پاک دشمن کی بھی اس وبا سے حفاظت فرمائے ۔پوری
دنیا میں کوئی بھی ایسا محاذ نہیں جہاں انسان اپنی ہمت اور حوصلے سے نہ ڈٹ اور لڑ سکے ایسی ہی ایک جیتی جاگتی مثال ہمارے سامنے نفیس بھائی کی شکل میں موجود ہے۔ میں سلام کرتی ہوں ان کے ہمت اور حوصلے کو جس طرح انہوں نے اپنی ہر چیز مجھ سے شئیر کی اور خودکو نہیں چھپایا۔ ان لوگوں کی رہنمائی کیلئے جو لوگ کرونا وائرس میں مبتلا ہوتے ساتھ ہی اپنی ہمت چھور دیتے ہیں۔ ہمت مرداں مدد خدا

اپنا تبصرہ بھیجیں