زندگی شاید ماں کی گود سے ماں کی آغوش تک، تحریر: ڈاکٹر انعم پری

زندگی، “ز،،ن،د،گ،ی ” دیکھنے میں ان پانچ حروف پر مشتمل یہ چھوٹا سا لفظ نہ جانے اپنے اندر کتنے راز سموۓ ہوۓ ہے ۔ کسی کے لیے اک تیز بہتی ندیاں کی مانند اپنے اندر صاف شفاف پانی لیے ہوۓ ہے تو کبھی کسی کے لیے گلیوں کا کیچر اور گند ان کا نصیب بناۓ ہو ۓ ہے۔ اک مرد ہے تو اسکے لیے اسکا مقصد مضبوطی سے اپنا مستقبل بنانا اور اک دن گھر کا سربرا ہ بن جانا ہے تو اگر وہی عورت ہے کوئی تو اس کے لیے اک گھر سے دوسرے گھر کا سفر!
‎ننھے بچے کی کلکاری سے لے کر آپکی وفات پے رونے والوں کی چیخ و پکار کی طرح یہ جیون بس جیئے جانے کا نام ہے شاید یا پھر کسی نے صحیح کہا تھا کہ تسبیح میں اک دھاگے کی نسبت سے ہر ہر دکھ سکھ کو پروئے اک تسلسل کا نام ہی زندگی ہے۔ یہ کسی کے لیے پھولوں کا بستر تو کسی کے لیے کانٹوں بھرا راستہ بن کر آتی ہے لیکن پھر بھی اسے جیے جانا ہی کامیابی ہے۔
‎کوئی کہتا ہے زندگی گلزار ہے، چمن کی بہار ہے تو کوئی اسے بہتے ساگر سے تشبیح دیتا ہے۔ وہ مشہور و معروف بابا جی تو یہ بھی کہتے ہیں ” حیاتی دے پتر ریل دی پٹری دی طرح سیدھی ہوندی ہے انہیں اک دن منزل تے پہنچنا ہی ہوندا ہے” یعنی زندگی کی منزل تو روزِاول کی طرح اک کرہ سچ ہے کہ آنی ہی آنی ہے !
‎یہ عام سی زندگی انسان اگر عبدالستار ایدھی ہو تو کبھی کبھی بہت خاص ہو جاتی ہے آپکی نیکی کے لگائے پھول ہر طرف کھلنے لگتے ہیں دور دور تک آپکا ہی بول بالا ہوتا ہے آپکے چلے جانے سے بھی ان پھولوں میں مہک نہیں جاتی۔
‎مولانا جالال و دین رومی کے لیے تو یہی جیون اک محبت کا نام تھا بس شاید وہ ہمیشہ اپنے رب کی مخلوق سے محبت کا پیغام دیتے رہے انہہوں نے اک بار کہا ” اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سیکھا تا تو اک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے” اور کتنی خوبصورتی سے خلقِ خداوندی سے لگاؤ کی بات کردی۔ ہمیں آج صرف بھاگتی دورتی زندگی کا شور پسند ہے ہمیں لوگوں کے درد میں گھٹی خاموشی دیکھائی نہیں دیتی وقت بھی ریت کی مانند ہاتھ سے پھسلے جا رہا ہے شاید اسی دور کے آنے کے ڈر سے مولانا رومی نے اک اور بار کہا تھا کہ ” تھوری دیر قبرستان جا اور خاموشی سے بیٹھ ان بولنے والوں کی خاموشی کو دیکھ” دنیا کی ریل پیل میں اس دوڑتی ہوئ گاڑی میں ان سارے مقصدوں میں کیا حاصل آپ خود ہی دیکھیے پچھلے دنوں “عرفان خان” صاحب کی وفات کا سن کر پورا سوشل میڈیا پر جون ایلیا کا خوبصورتی سے لکھا گیا قول کتنا مشہور ہوا تھا اور یقیناً حقیقت بھی ہے کہ” ہم حسین ترین، ذہین ترین ، امیر ترین اور زندگی میں ہر حوالے سے بہترین ہو کر بھی بلا آخر مر ہی جائیں گے” سنا ہے عرفان خان صاحب کی والدہ کا انتقال کچھ ہی عرصے پہلے ہوا اور مرنے سے پہلے ان کے الفاظ تھے کہ “مجھے اماں لینے آگئ ہیں کیا ہی خوب سنجوق ہے نا یہ کہ عرفان صاحب کی زندگی ماں کی گود سے شروع ہو کر ماں ہی کی آغوش میں سما جانے والی رہی شاید ہم سبکی بھی ایسے ہی ہے ماں کی ممتا سے لے کر مٹی میں دفن کر جاتے وقت ستر ماؤں سے ذیادہ محبت کرنے والے رب کی طرف لوٹ جانے کاسفر۔۔۔واہ رے! بر حق حقیقت۔۔۔۔”!
‎آئیے زندگیوں کے اتنے روپ دیکھ لینے کے بعد ہم اور آپ اس ماہِ رمضان کچھ الگ کرتے ہیں تھورا سا نیکی کی ٹوکری کو بھرتے ہیں تو کہیں تھوڑا سا نیکی رکنی نہیں چاہیے کا ساتھ دیتے ہیں وہیں کہیں کسی کا غم ببانٹ لیتے ہیں تو کہیں اپنے ہی اُن مسئلوں کو سلجھاتے ہیں جسے آج تک ہم اہم نا جان پائے ۔۔۔
‎لوگ کہتے ہیں زندگی سب کے لیے ایک برابر نہیں ہے۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہے! یاد رکھیے ہمیں زندگی دینے والا “رب” سب سے بھرا انصاف کرنے والا ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ سب کے لیے یہ برابر نہ ہو بس اس کے آزمانے کے اور دینے کے رنگ الگ الگ ہیں جہاں پیسہ ہے وہاں وہی آزمائیش ہےجہاں اولاد ہے وہاں وہ بھی امتحان ہے اور جہاں یہ دونوں نہیں اس کی چاہ ہی سب سے بھری اُمنگ ہے دکھ سکھ برابر ہی ملتے ہیں اپنے دیکھنے کا نظریہ بدلیں اگر کچھ بھلا نہیں کر سکتے تو حسد بغض سے دور رہیں بُرا بھی نہ کریں راستوں سے کانٹے چنیےﷲتعالٰی کے فضل سے آپ کے لیے پھولوں کی بہار ہے پھر انشااﷲ!

اپنا تبصرہ بھیجیں