جیوکرونا کے ساتھ، تحریر: ثناء آغا خان

کرونا وائرس نے دنیا کے طاقتورملکوں کو گھٹنوں کے بل جھکادیا ہے،مقتدرقوتوں کی معیشت کی اونچی عمارات بھی زمین بوس ہوگئی ہیں۔جہاں دن رات زمین سے ”تیل” ابلتا بلکہ زمین سے” زر” نکلتا تھا، اب کرونانے ان ملکوں کی معیشت کا بھی” تیل” نکال دیا ہے۔دنیا بھر میں کئی بڑے اور نامور اداروں کی بندش سے بیروزگاری کانیا طوفان امڈ آیاہے، کرونا وبا کے بعد ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چندماہ میں ہماری دنیا تبدیل ہوگئی ہے ۔ کرونا کے قہر نے دولت اورفوجی طاقت کاغرور بھی چکنا چور کردیا ہے۔اس وقت شایدکوئی ایساملک ہوجہاں کرونا کی شرانگیزی کے نتیجہ میں صف ماتم نہ بچھی ہو،جدیدشہروں سے بھی لگاتار شہریوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں تاہم ایک امید افزاءبات یہ ہے کہ جام صحت نوش کرنیوالے افراد کی تعداد فوت شدگان سے بہت زیادہ ہے۔ اورامید ہے کہ عنقریب اللہ ربّ ا لعزت انسانیت اس وباسے نجات کیلئے یقیناکوئی راستہ سجھا دیں گے ورنہ ابھی تک تو اس سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نکلتا نظرنہیں آ رہا۔ کروناوبا کے نتیجہ میں عالمی معیشت کے میدان میں اتھل پتھل صاف دیکھی جاسکتی ہے۔کرونا کی شیطانی وار سے انسان کے آس پاس بہت کچھ بدل گیا اوردنیا بھر میں تیزی سے کئی اقسام کی تبدیلیاں جاری ہیں۔ لیکن دوسری طرف آج بھی بھارت کے اندر انتہاپسندہندوﺅں کے انفرادی واجتماعی رویوں اور ان کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ آج بھی اپنے ملک میں کمزوراورپسماندہ مسلمانوں کو بدترین انتقام کانشانہ بنانے سے بازنہیں آرہے۔ میں سمجھتی ہوںضمیرفروش ہندو سبزی فروشی جیسے معمولی تجارتی کاموں میں بھی مسلمانوں کوتجارت کے حق سے محروم کررہے ہیں، مودی سرکار کی سرپرستی میں کرونا وبا کو تبلیغی اورسبزی فروش مسلمانوں سے منسوب کردیا گیا ہے۔بھارت کے مختلف شہروں میں تجارت پیشہ مسلمانوں پر دلخراش تشدد کے واقعات منظرعام پرآرہے ہیں ،کرونا وبا کے آنے سے کشمیریوں کی دشواریاں دو چند ہو گئی ہیں، جبکہ آزادی کے پروانوں کی جدوجہد میں کمی آنے کی بجائے مزید شدت آگئی ہے۔کشمیری غلام پیداہوئے اورنہ ہی انہیں غلامی کی موت گوارہ ہے۔سات دہائیاں قبل پہلے کشمیری نے جام شہادت نوش کرتے ہوئے اپنی قوم کے پیروں میں غلامی کی بیڑیاں توڑ دی تھیں ،وہ اپنے حق آزادی پرہرگزسمجھوتہ نہیں کریں گے۔ تہتربرسوں سے جاری کشمیربحران اقوام متحدہ اورانسانیت کاامتحان ہے۔کوئی باضمیر اہل کشمیر اورتحریک آزادی کشمیر کی دوٹوک حمایت سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔
میں ہرروزقومی اخبارات میں کرونا کی ”تباہ کاریوں” کے واقعات پڑھتی اورکسی نہ کسی نجی ٹی وی چینل پر نیوزکاسٹرز سے تازہ ترین اعدادوشمار سنتی ہوں تومجھے آزادی کیلئے سربکف بیگناہ کشمیریوں کی ”فداکاریوں” کے روح پرور واقعات یادآجاتے ہیں۔اب انسان کواس کرونا کے ساتھ زندہ رہناہوگااوربتدریج اس وبا سے نجات حاصل کرناہوگی۔دنیا پر”کرونا”کی دہشت طاری اوراس کی بربریت جاری ہے ،متاثرہ انسانوں کاروناسن کر ہردردمندانسان کادل خون کے آنسوروتا اوروہ اس صورتحال پرکف افسوس ملتا ہے۔کوئی باضمیرانسان اس دوران یرغمال کشمیری ماﺅں،بیواﺅں ،بہنوں،بیٹیوںاوریتیموں کا ”رونا” ہرگز نہیں بھول سکتا۔جنت نظیر کشمیر کے لوگ اپنے ہاتھوں سے بنائے گھروں میں ناحق قید کاٹ اورآزادی کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمررہے ہیں،انتہاپسندمودی کی انانے کشمیراورکشمیریوں کوفناکردیا۔جس بھارت نے کشمیرمیں آگ بھڑکائی ہے اس کااپنادامن بھی ان چنگاریوں سے محفوظ نہیں رہا،بھارت میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کواگرمکافات عمل کہاجائے توبیجا نہ ہوگا۔دنیا کے کسی متمدن ملک میں بھی کروناوبا سے بچاﺅکیلئے دوا دستیاب نہیں جبکہ شیرخواروں سمیت کشمیریوں کو دودھ اور زندگی بچانے والی ادویات سے محروم کردیناکہاں کی انسانیت ہے۔انتہاپسندنریندرمودی نے کشمیر کی آئینی حیثیت پر بار بار حملے کئے تو دنیا کی مقتدرقوتوں کی طرف سے بھارتی بربریت کی مذمت اور ملامت تک نہ کی گئی۔جنت نظیر کشمیر میں سات دہائیوں سے کریک ڈاﺅن کرنیوالی بھارتی فوج نے تاریخ کاطویل ترین لاک ڈاﺅن کردیا مگراس کے باوجودعالمی ضمیر سویارہا۔کرونا سے متاثرہ انسانوں کی اموات کے اعدادوشمار کی بازگشت میں مجھے کشمیری شہیدوں کی گنتی بار بار یادآتی ہے۔بھارت فوج کے درندے جموں وکشمیر میں روزانہ کی بنیادپرکشمیری ماﺅں کی گود اجاڑ رہے ہیں ،معصوم کشمیریوں کو یتیم اور ان کی ماﺅں کوبیوہ کردیاجاتا ہے۔حکومت ہند کے ہاتھوں شہدائے کشمیر کی تعدادایک لاکھ سے کرگئی ہے،اللہ تعالیٰ جانے جموں وکشمیر میں جاری کشت وخون کاسلسلہ کب اورکس طرح رکے گا۔کروناوبا سے ہونیوالی اموات کی تعداد کشمیری شہداءکی گنتی سے دوگنا ہو گئی ہے۔
کشمیر میں لاک ڈاﺅن پرخاموشی اختیارکرنیوالی دنیا کوطویل خود لاک ڈاﺅن کاسامنارہا،کروناوباکے سبب دنیامیں جاری تبدیلیاں غور اورسوچ بچار کی متقاضی ہیں،اگرانسان بہتری اوراصلاح احوال کی کاپختہ ارادہ کرلے تویقینا یہ نشانیاں انسانیت کیلئے آسانیاں بن سکتی ہیں۔چندماہ پہلے تک جس عیش وعشرت کے سب انسان دوسروں کی محرومیوں سے مجرمانہ چشم پوشی کامرتکب ہورہا تھا اب تووہ عیش وعشرت کے مراکز بھی بندپڑے ہیں،اب انسان اپنے پیاروں کو بھی نہیں چھوسکتا۔دنیا کی مقتدر اوربڑی معاشی قوتوں کوڈرتھااگرانہوں نے کشمیریوں پرہونیوالے ظلم وتشدد کیخلاف آوازاٹھائی یااحتجاج کیا توبھارت ناراض ہوجائے گااوراس صورت میں ایک بڑی تجاری منڈی ان کی دسترس سے نکل جائے گی اورمعاشی طورپران کانقصان ہوجائے گا۔گویاانسان کو انسانیت سے زیادہ تجارت سے لگاﺅہوگیاہے۔میں ان معاشی قوتوں سے پوچھتی ہو کرونا کے بعداب ان کی معیشت کس حال میں ہے،ان کی بھارت کے ساتھ تجارت نے انہیں کیافائدہ پہنچایا۔بھارت کے باوردی درندوں کامقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنیوالے نوجوان کشمیریوں کے جنازے دیکھ دیکھ کر ندامت اورضمیر کی ملامت محسوس نہ کرنیوالے آج اپنے اپنے ملک میں ہرروز بیسیوںجنازے ا ٹھا اورانہیں اجتماعی قبور میں دفنارہے ہیں لیکن آج جدیدترین ٹیکنالوجی کے باوجود ان کے بس میں کچھ نہیں ہے۔دنیابھر کی مقتدرقوتیں یادرکھیں جودوسروں کیلئے آسانیاں پیداکرتے ہیں ان کاراستہ اپنے آپ ہموارہوتاجاتا ہے۔اگردنیا کوکروناوبا کی بندگلی سے باہرنکلنا ہے توانہیں کشمیریوں اورفلسطینیوں کی آزادی وآسودگی کیلئے کلیدی کرداراداکرناہوگا۔دنیاکو”وباﺅ ں” سے پاک کرنے اور امن وآشتی کاگہوارہ بنانے کیلئے انسان کواپنی” وفاﺅں”اوراپنے وسائل کارخ انسانیت کی طرف موڑناہوگا۔محض تجارت کیلئے انسانیت کادامن اورکسی بھی معاشرے کے معتوب انسانوں کودرندوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاسکتا۔کرونا کے بعد دنیا بدلے گی لہٰذاءاس تبدیلی کے ساتھ مفاہمت اورمطابقت کیلئے طاقتور انسانوں پر لازم ہو گا کہ وہ کمزور انسانوں کو بھی اپنے ہی جیسا سمجھتے ہوئے اپنی ترجیحات اور ذہنیت تبدیل کریں کیونکہ اب ایساکئے بغیر زندگی کاآ ئندہ کا سفر انتہائی دشوار ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں