ہمارے ملک میں آجکل جنگی حالات ہیں ۔ ہر کو ئی اسی موضوع پر گفتگو کرتے نظر آتا ہے۔ کسی انگریز سیانے نے کہا ہے کہ “جنگ کے صیح حالات کا اندازہ لگانا ہو، تو اس ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کی گفتگو سے اس وقت کے حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے” ۔ میں گنوار ایک وکیل کے گھر جا بیٹھا اور اس کی گفتگو اس کے ڈاکٹر دوست کے ساتھ کو ہوبہو قلمبند کر رہا ہوں ۔ تاکہ آپکو بھی معلوم ہو، کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ایسے حالات میں کتنے ڈرے اور پریشان ہیں۔
میری موجودگی میں ڈاکٹر صاحب ااپنے وکیل دوست کو ملنے ان کے گھر آئے۔ حا ل احوال پو چھنے کے بعد حیرت سے دریافت کیا کہ ، آج کچہری سے جلدی گھر کیسے آگئے۔؟ وکیل صاحب نے کہا: آج جج غصے میں تھا۔ اس نے کہا ‘جہنم میں جاؤ”، اور میں گھر چلا آیا۔ پر تم کیوں لیٹ آئے ہو؟ کب سے فون کیا ہے تمھیں، چائے پینے کے لیے، تمھیں کیا مسئلہ بنا۔؟ ڈاکٹر ذومعنی مسکراہٹ سے بولا، یار راستے میں لگے ہوئے ایک بورڈ کی وجہ سے ہمیشہ دیر ہو جاتی ہے۔ اس پر لکھا ہے، آہستہ چلئے گھر آپکا کوئی بھی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ دونوں مسکرا دیئے۔ وکیل نے ڈاکٹر سے پو چھا، تم اب شادی کیو ں نہیں کروالیتے۔ ڈاکٹر نے ایک سرد آہ بھری اور کہا آج صبح ہی اپنے والد سے کہا میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔والد نے فرمایا، نہیں بیٹے تم ابھی اتنے عاقل و دانا نہیں ہوئے کہ تمھاری شادی کی جائے، میں نے ذرا جرات کرتے ہو ئے پوچھا، میں عاقل و دانا کب ہو جاؤں گا؟ والد نے کہا: جب تمھارے دل سے شادی کرنے کی خواہش ختم ہو جائے گی۔ دونوں ہنس پڑے۔اتنے میں چائے ملازمہ لے آئی۔وکیل چمچے سے چائے کو ہلاتا پھر ایک گھونٹ بھرتا اور پھر مسکراتا ہوا پیالی کو رکھ دیتا۔ڈاکٹر نے پو چھا کیا بات ہے آج بڑے مسکرا رہے ہو۔ وکیل کہنے لگا لو جی!!! آج ایک بات ثابت ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا وہ کیا؟ وکیل کہنے لگا: اگر چائے میں چینی نہ ہو، تو چاہے لاکھ ہلاؤ میٹھی نہیں ہو تی۔ کمرے میں قہقے گونج اٹھے۔ وکیل نے کہا، آجکل مو سم حبس والا ہے، جسکی وجہ سے بڑی سستی سی رہتی ہے طبیعت میں، یار کوئی دوائی کی ضرورت ہے، جس سے میری سستی ختم ہو جائے۔ میں چاق و چوبند ہو جاؤں، میرے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں، میں لڑنے مرنے کو تیار ہو جاؤں، آج کوئی ایسا نسخہ لکھ دے۔ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا؛ وہ چیز میں نسخے میں نہیں، بل میں شامل کردوں گا۔وکیل صاحب کہتے مجھے پتا تھا کہ تم کچھ ایسا ہی کہو گے، کیونکہ میں کسی بھی شخص پر ایک نظر ڈال کر بتا سکتاہوں، کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔ ڈاکٹر نے گفتگو کے آداب کو نظر انداز کرتے ہوئے برجستہ جواب دیا، یہ جان لینے کے بعد تو آپکو کافی شرمندگی ہوتی ہو گی۔
یہ بات سن کہ تو میری ہنسی بھی نکل گئی۔ میری ہنسی سے دونوں کو یاد آیا، کہ میں بھی ان کے درمیان بیٹھا ہوں، تو دونوں نے بیک وقت، یک زبان مجھ سے دریافت کیا، کہ اڑی حملہ کی کیا خبر ہے ؟ میں نے کہا آپکو بریکنگ نیوز دیتا ہو ں، کہ انڈیا والوں کو اڑی حملہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا ثبوت نور جہاں کے گانے میں مل گیا ہے۔ دونوں کے منہ حیرت سے کھل گئے، اور پو چھا وہ کیسے تو میں نے ان کی حیرت کا مزہ لیتے ہوئے کہا؛ کہ نور جہاں نے گاناجو گایا تھا، *میں اڑی اڑی جاون ہوا دے نال* اور ہم تینوں کے قہقہے کمرے میں گونج اٹھے۔
اتنی سی گفتگو سے ہی مجھے اندازہ ہو تا ہے کہ انڈیا شرما گیا ہو گا کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ کسی بھی پر یشانی میں نہیں اور وہ ان کشیدہ حالات کے باوجود کتنا خوش مزاج اور موقع شناس ہے۔
__________________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔