کورونا وائرس: کیا ہم دنیا کے تجربات سے سیکھنا نہیں چاہتے؟ تحریر: عائشہ انور بٹ

بنی نوع انسان اس وقت ایک بین الاقوامی وبائی مرض سے نمبرد آزما ہے۔ جسے اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے بین الاقوامی صحت کی تنظیم یا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے کووڈ19 یا کورونا وائرس کا نام دیا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے ارباب بستہ و کشاد مختلف مواقعوں پر بین الاقوامی صحت پر کووڈ وائرس کے اثرات اور اس سے پیدا شدہ حالات واقعات کے بارے میں سنگین خطرات کا اظہار کر چکے ہیں۔ عمومی طور پر ایشیاء اور خصوصی طور پر پاکستان کے بارے میں کووڈ۔19 وائرس کی تباہ کاریوں کے بارے میں اپنی مختلف رپورٹوں میں شدید خطرات کا اظہار کیا ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق پاکستان کرونا وائرس کا بہت بڑا ٹارگٹ ہو سکتا ہے جس سے کروڑوں کی آبادی متاثر ہو سکتی ہے جبکہ نتیجتاً لاکھوں میں اموات ہو سکتی ہیں۔ ان رپورٹوں میں ایشیائی ممالک جہاں کرونا وائرس قدرے دیر سے داخل ہوا وہاں کی حکومتوں کو وائرس سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تجاویز بھی دی گئی تھیں۔ خاص طور پر چین و دیگر ممالک کے تجربات اور اقدامات سے استفادہ کرنے کی طرف اشارہ بھی کیا گیا تھا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے ایشیائی ممالک خاص طور پر پاکستان کے معاشرتی اور نظام صحت کے حالات کے تناظر میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ جہاں آبادی کے شدید دباؤ کے باعث نظام صحت پر دباؤ بڑھنے اور نتیجتاً سنگین انسانی المیہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
قارئین اس سے قبل ہم دنیا کے تجربات اور اقدامات کا تذکرہ کریں۔ تھوڑا سا ذکر کووڈ۔19 وائرس کے بارے میں کر دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ دنیا میں سب سے پہلے اس وائرس کی موجودگی کے بارے میں چینی ماہرین صحت نے دنیا کو مطلع کیا۔ بقول ان کے اس وائرس کا سلسلہ چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا اور یہ وائرس چمگادڑ سے انسانی جسم میں داخل ہوا۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ وہاں کی فش مارکیٹ کے ذریعے کووڈ وائرس انسانی جسم میں داخول ہوا۔ دنیا میں پہلا کرونا مریض جنوری 2020 ء کے آغاز میں چین میں پایا گیا اس کے بعد ووہان کی آبادی تیزی سے کووڈ کا شکار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں ہی مریضوں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں کو چھونے لگی۔ مرض تیزی سے پورے افریقہ ‘ خلیج فارس ‘ مشرق وسطیٰ ‘ امریکہ ‘ آسٹریلیا اور ایشیاء میں پھیل گیا۔ ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس ایک انسان سے دوسرے کو بذریعہ سانس منتقل ہوتا ہے۔ وائرس ابتدائی طور پر ناک یا منہ کے ذریعے سے جسم کے اندر داخل ہوتا ہے۔ جہاں ابتدائی طور پر وہ نزلہ ‘ زکام ‘گلے میں خراش ‘ درد اور ہلکے بخار کا باعث بنتا ہے۔ اور اس کے بعد پورے نظام تنفس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کووڈ وائرس سے عمومی اموات نظام تنفس کے ناکارہ ہونے پر ہوتی ہیں لیکن ماہرین کے مطابق کچھ مریضوں میں اس کی وجہ سے گردوں او ر جگر کا مکمل متاثر ہونے کا مشاہدہ عمل میں آیا ہے۔ لیکن غالب وجہ موت سانس کے نظام کا فیل ہو جانا بھی قرار دیا گیاہے۔
کووڈ وائرس یا کرونا کے بارے میں دیگر معلومات جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے جاری کی ہیں بڑی ہی دلچسپ اور ضروری ہیں جن کا تذکرہ بھی کرنا ضروری ہوگا۔ عمومی طور پر دریافت شدہ وائرس کی اناٹامی ڈی این اے بیسڈ ہوتی ہے جس کی سرواول کا دورا نیہ بڑا کم ہوتا ہے۔ یعنی تقریباً 200 کے قریب دریافت شدہ وائرسوں کی عمر بڑی کم ہوتی ہے اور وہ ایک انسان سے دوسرے کو بڑی کم شدت سے منتقل کرتے ہیں۔ لیکن کووڈوائرس دیوار پر 9 سے 12گھنٹے’ فرش پر 2 گھنٹے’ دھات پر چار گھنٹے زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ کووڈ کا مریض کسی بھی معاشرے میں ایک خودکش بمبار کی طرح لاتعداد لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ وائرس عمومی طریقوں یعنی ہاتھ ملانے بغلگیر ہونے اور اجتماعیت کے باعث بھی تیزی سے پھیلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وائرس سے بچائو کیلئے سماجی فاصلہ کو ایک بڑا ہتھیار اور احتیاط قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین صحت صفائی ستھرائی کو بھی ایک موثر احتیاط قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جن معاشروں کو طہارت اور پاکیزگی کے عناصر کا خیال نہیں رکھا جاتا وہاں کووڈ۔19 بڑی تیزی سے اپنا کام دیکھاتا ہے۔ ایک اور دلچسپی سے بھرپور معلومات بھی بڑی اہم کہ کووڈ وائرس اگرچہ بڑی تیزی سے پھیلتا ہے لیکن مشاہدہ کے مطابق اس کی وجہ سے شرح اموات 2 سے 5 فیصد ہوئی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں لوگ اس مرض سے اپنی قوت مدافعت کی بدولت صحت یاب ہو جاتے ہیں یا ان میں اس کی عمومی علامات کا اظہار ہوتا ہے۔ اور نزلہ نکام کی طرح ختم ہو جاتی ہیں۔ کووڈ کے عمومی شکار پچاس سال سے بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔
قارئین محترم! یہ تھیں معلومات جو ابھی تک مشاہدات میں آئیں۔ بشمول اس امر کے مذکورہ مرض کی کوئی دوا نہ ہے۔ میڈیکل سائنس ابھی اس سلسلے کی کوششوں میں ہے کہ اس کی کوئی ویکسین یا دوا تیار کی جائے تاکہ اس وائرس کی تباہ کاریوں سے نسل انسانیت کو بچایا جا سکے۔ ویسے ملیریا کی دوا کلوروکوئین کی تجرباتی استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن سب سے بڑا ہتھیار صرف اور صرف احتیاط کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔
اب ذرہ پاکستان کی صورتحال کو دیکھتے ہیں۔ یہاں کووڈ وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو پکڑ ا جاتا ہے جبکہ اس سے تا دم تحریر تقریباً 42 ہزار سے زیادہ متاثرین کووڈ کی رجسٹریش ہو چکی ہے جبکہ اس کی وجہ سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اور دن بدن مریضوں کی تعداد اور اموات میں اضافہ کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے۔ ووہان سے ایران تک اس وائرس کیخلاف دنیا بھر نے لاک ڈائون کو موثر احتیاط کے طور پر اپنایا اور اس سے بہتر نتائج حاصل کئے۔ لیکن پاکستان میں اگرچہ وائرس 177 نمبر پر آیا لیکن یہاں حکومتوں کی طرف سے خاص طور پر وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی موثر پالیسی سامنے نہیں آئی۔ صوبائی حکومتوں نے اپنے طور پر اپنے دائرہ اختیار میں لاک ڈاؤن کے ذریعے اس وبائی مرض کو روکنے کی کوشش کی جس میں بڑی حد تک کامیابی ملی جس کی سب سے بڑی مثال ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے خدشات کے برعکس کم پھیلاؤ اور شرح اموات ہے۔ لیکن وفاقی قیادت کی طرف سے مسلسل لاک ڈائون مخالفت کے باعث عوام الناس میں لاک ڈائون پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہ کیا گیا بلکہ کووڈ وائرس کی بنیاد پر سیاست بازی اور الزام تراشی کے ایک ماحول کو دانستہ طور پر پروان چڑھایا گیا اور آخر کار کم لاک ڈائون ‘سمارٹ لاک ڈاؤن اور سپاٹ لاک ڈائون کی نئی نئی اصلاحات ایجاد کی گئیں جس سے عوام میں لاک ڈائون کے بارے میں نفرت پیدا ہوئی اور اب جبکہ ماہرین کے مطابق اس وائرس کے پھیلائو کو انتہائی خطرناک نقطہ کی طرف جانا ہے تو لاک ڈاؤن کے خاتمہ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ بجائے اس امر کے کہ ان معاشرتی طبقات کی معاشی مدد کیلئے کوئی پالیسی بنائی جاتی جن کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ وہ بھوک سے مر جائیں گے۔
قارئین محترم! دنیا میں کرونا کو موثر لاک ڈاؤن اور فوڈ چینTesting کی بنیاد پر بھی شکست سے دوچار کیا گیا۔ لیکن ہمارے یہاں حکومتوں میں باہمی یکسوئی کا فقدان نظر آیا۔وفاق نے لاک ڈائون پالیسی کی مخالفت کی جبکہ پنجاب ‘ کے پی کے نرم لاک ڈائون اور سندھ کی طرف سے سخت ترین ‘ آزاد کشمیر ‘ گلگت بلتستان اور بلوچستان کی طرف سے بھی سندھ کی طرح سخت لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی گئی۔ وفاقی وزراء نے وزیراعظم کی لاک ڈائون مخالف پالیسی کو ایک سیاسی جنگ میں تبدیل کر دیا۔ خاص طور پر سندھ حکومت وفاق اور وفاقی وزراء کے نشانے پر آ گئی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے سندھ کو کووڈ کیخلاف موثر حکمت عملی اپنانے پر مبارکباد کیا ملی کہ کووڈ کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نقطہ بنا دیا گیا جس کا نقصان آپ کے سامنے ہے کہ لاک ڈائون کے خاتمہ کے اعلان کے ساتھ ہی کووڈ کیسوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور بات خاص طور پر قابل غور اور ذکر ہے کہ وفاق کی طرف سے مسلسل لاک ڈائون کی مخالفت اور وفاقی حکومت کے ذریعے پنجاب اور کے پی کے میں ٹیسٹنگ کی شرح کو کم رکھنا بڑا ہی معنی خیز ہے۔ جس کے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن اس پالیسی کا عوام کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ ہمارے حکمران خاص طور پر وفاقی حکومت شاید دانستہ طور پر کووڈ وائرس کے حوالے سے دنیا کے تجربات سے استفادہ کی طرف مائل نظر نہیں آتی بلکہ اس کا رجحان صرف اور صرف اس ایشوء کے معاشی پہلو پر ہے’ انسانی پہلو پر بہت کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کووڈ وائرس 19- کی وبائی مرض کیخلاف دنیا کے تجربات کو Replicnte کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس ان دیکھے دشمن کیخلاف پیش بندی اور تدارک ہو سکے لیکن ہمارے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے تجربات سے سیکھنے سے یک قلم متروک قاصر ہیں۔ ہمارا یہ رویہ پاکستان میں کسی بڑے انسانی المیہ اور نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وبائی مرض کو روکنے اور تدارک و چھٹکارہ کے سلسلہ میں طبی ماہرین کی آرا ء کو فوقیت دی جائے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں