تانگہ، تحریر: ڈاکٹر محمد شہزاد

تانگہ جب کچی پکی شاہراہ یا ناہموار راستوں پر دوڑتا ہے تو زندگی کی اونچ نیچ کے تمام اتار چڑھاؤ بوند، بوند ۔ علامات کی صورت برسنے لگتے ہیں۔ تانگہ بظاہر تین سادہ لوازمات کا مرکب خاص ہے جبکہ ثانوی اجزائے ترکیبی کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔
تانگے کے بنیادی اراکین میں پہلا کوچوان، دوسرا گھوڑا اور تیسرا خود چھکڑے کو شمار کیا جاتا ہے۔ تانگہ ان بنیادی عناصر کی موجودگی میں بھی اس وقت تک تانگہ کہلانے کے منصب پر فائز نہیں ہوتا جب تک کہ یہ تینوں معرکۃ لآرا اشیاء ایک خاص ترتیب سے واقع نہ ہوجائیں۔
تاریخی جائزے سے تانگے کی بہت سی کرامات سامنے آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم فقط ایک کرامت کا تذکرہ ہی ایمان تازہ کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ کہ تانگے پر موجود سواریوں کی ایک خاص تعداد آگے کی طرف_ جبکہ عین نصف پیچھے کی- جانب بیک وقت اپنا اپنا سفر پاٹ رہی ہوتی ہیں۔
تانگے میں کوچوان ترازو کے چھوٹے باٹ کی مانند توازن برقرار رکھنے کا کام بھی کرتا ہے۔ پچھلی نشست پر سواریاں بوجھ دار ہوں تو یہ بے چارہ پھدک کر بمبو پر براجمان ہوجاتا ہے جبکہ فرنٹ سیٹ پر دباؤ بڑھنے کے ساتھ ہی یہ ایک ہی آن میں تانگے کے پچھلے پائیدان پر پایا جاتا ہے اور وہیں سے فاصلاتی نظام تعلیم کی طرز پر تانگے کی مکمل باگ دوڑ سنبھالے رہتا ہے۔
کوچوان اس دوری کو مجبوری نہیں بننے دیتا۔ تانگے کے ثانوی عناصر میں بہت سے روایت شکن ناقابل ذکر عیوب شامل ہیں۔ اسی لئے ان سے مکمل اغماص برتا جارہا ہے۔ ویسے بھی ان فسق و فجور باتوں کا تانگے کے ہچکولوں میں ذہن سے محو ہوجانا خارج از امکان نہیں تھا ۔
تانگے کے ضمن میں یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اگر ایک چھکڑے میں گھوڑا جوت دیا جائے اور اسے ایک چھانٹا بردار بھی میسر آجائے تو تب بھی تانگے کو تانگے کی منزل سے آشنائی ممکن نہیں۔
تانگے کو تانگے کے میرٹ پر پورا اترنے کے لئے گھوڑے کا سدھایا ہونا دوسرے مرحلے کی بحث ہوسکتی ہے جبکہ تانگہ چلانے والے کا ایک فرد ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کا باقاعدہ کوچوان ہونا بھی ازحد ضروری شمار ہوتا ہے۔
کوچوان اس تانے بانے میں ایک ایسا جوشیلا۔ لیڈر ،ہوتا ہے جو راستے کی ناہمواریوں، کیچڑ، دھول مٹی، آندھیوں حتیٰ کہ موسلا دھار بارشوں کی پرواہ کئے بغیر ایک’ ایک سوار کو اس کی منزل مراد تک _ پہنچا کر ہی ”دام“ لیتا ہے۔
تانگے کا کوچوان قومی یک جہتی اور ملی ہم آہنگی ۔کے جذبے کی امنگوں سے اس قدر سرشار ہوتا ہے کہ وہ ابتدائے عشق سے انتہائے رسوائی تلک سواریاں لادتا ہی رہتا ہے۔
فی زمانہ کوچوان سے بڑھ کر کون ہے …… جو نسلی امتیاز کے خاتمے، لسانی فسادات کی بیخ کنی اور مذہبی ہم آہنگی کا خواہاں ہو۔ ایک غیر محتاط اندازے کے مطابق اگر تانگہ سوار اپنے ہی ہم جھولیوں کے خلاف سراپا احتجاج نہ ہوتے _ تو آج دنیا میں منافرت، تعصبات اور جنگ و جدل کی باتیں قصہ پارینہ ہو گئی ہوتیں۔
ہمارے خیال میں تو تانگوں کا ناپید ہونا بھی ان تنگ نظر اور کوچوان کش افراد کی سوچی سمجھی عالمی سازش کا شاخسانہ ہی ہے۔

ذرا سوچئے! اگر دنیا میں آج تانگے کا چلن عام ہوتا تو اس عالم رنگ و بو میں روزانہ تو درکنار_ لمحوں کی بنیاد پر نہ جانے کتنے انسانوں کو آپس میں خوامخواہ بغل گیر ہونے کے مواقع میسر آتے……
دنیا میں بھائی چارے کا چلن عام ہوتا اور ہاں ۔۔آج بڑے بڑے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ گھوڑا چارہ کھاتا ہے یا۔۔ گھاس۔
کوچوان میاں کی عظمت رفتہ کی کہانیاں چہاردانگ عالم پھیلی ہوتیں ……
یہی ایک بے باک اور نڈر رہنما کی مانند ہوتا جو معاشرے میں سماجی، معاشی، سیاسی، اونچ نیچ کو ہمیشہ ہموار ہی کرتے دکھائی دیتا۔
تانگہ ہی ایک ایسا عملی میدان ہے جہاں لبرل ازم صدیوں پہلے سے ہی حقیقی طور پر نافذ العمل رہا ہے۔
تانگہ ہمارے نزدیک ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں صنفی امتیاز سے بالا تر ہوکر مرد و زن باہم شیر و شکر ایک ہی منزل کے دو مسافر ہوتے ہیں۔
تانگے پر سوار ہونے کے کچھ ”ایس او پیز“ ہوتے ہیں جنہیں ملحوظ رکھے بغیر آپ کا تانگے پر سوار ہونا خطرے سے کم نہیں۔
پہلا کڑا ۔ا صول یہ ہے۔ کہ تانگے کی فرنٹ سیٹ پر صرف مرد جبکہ پچھلی نشست پر فقط خواتین سوار ہوں گی۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ تمام راستے طرفین ایک دوسرے کی نقد یا آسان اقساط پر پشت پناہی کرنے کے دعویدار۔ر ہتے ہیں۔
تانگے کے سوار مرد و زن ایک خالص مشرقی ۔ مثالی جوڑے کی حقیقی تصویر فراہم کررہے ہوتے ہیں
کیونکہ دونوں ہی ایک دوسرے سے منہ موڑے خاموشی سے ہچکولے کھاتے تانگے پر محو سفر رہتے ہیں۔
تانگے کو اپنی ہیئت جبکہ کوچوان کو اس کی ہیبت کے اعتبار سے مختلف اقسام میں باآسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ کوچوان اپنی مونچھوں کے تاؤ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے منفرد قرار پاتے ہیں۔
یوں تو ہر وہیکل کو سرکاری سطح پر ایک رجسٹریشن نمبر الاٹ کیا جاتا ہے۔ تاہم تانگہ اپنی نمبر پلیٹ کی بجائے کوچوان کی وضع قطع کے اعتبار سے اپنی خاص شناخت کا حامل قرار پاتا ہے۔

ہر تانگے کو اس کے ۔ کوچوان شریف ۔ کے ظاہری خدوخال کے مطابق ایک فیچرائی نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
یہ اسمائے گرامی اپنے اندر ابلاغ عام کی بھرپور وصف رکھتے ہیں اور بذریعہ سینہ گزٹ ہر چھوٹے بڑے، عام و خاص کی زبان پر آسانی سے رواں ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
آپ جونہی کسی تانگہ اسٹینڈ تک پہنچتے ہیں تو وہاں موجود بہت سے خدائی مددگار آپ کی منزل دریافت کرنے کے درپے ہوں گے۔
آپکو مطلع کیا جائے گا کہ آپ کے مطلوبہ _روٹ پر طوطا پہلوان پہنچنے والا ہے۔ آپ انتظار کی تکلیف دہ گھڑیوں کو آسان بنانے کی خاطر طوطا پہلوان کی وجہ تسمیہ دریافت فرمائیں گے۔ آپ کو پہلی خواندگی میں ہی اپنی کم مائیگی کا احساس شدت ستانے لگے گا۔
تاہم تانگہ مبارک کے سامنے آنے پر آپ کو نہ صرف پتہ لگے گا بلکہ لگ پتہ جائیگا کہ طوطا پہلوان کے طوطے کی طرح کے پر ہیں نہ اس کا رنگ _
بلکہ یار لوگوں نے تو فقط ۔کوچوان کی طوطا چشمی اور ستواں ناک کی پذیرائی کی خاطر یہ لقب عطا کیا ۔

پہلوان کے ضمن میں آپ پر یہ بات عیاں ہوگی کہ کوچوان تو کوچوان گھوڑا بھی ہڈیوں کی مٹھی کے سوا کچھ نہیں۔
جونہی تانگے کا پہیہ منزل کی جانب بڑھتا ہے تو گھوڑے کے سموں سے کچے پکے راستوں کی آوازیں الگ الگ داستاں بن کر فضا میں صوتی اثرات بکھیرتی ہیں۔
ادھر پہیہ گھوما ادھر کوچوان کی چابک گھوڑے پر جبکہ اس کی چابکدستی سواریوں پر ہلکی ہلکی سرزنش کی صورت تسلسل کے ساتھ جاری رہتی ہے۔

کوچوان آغاز میں تو گھوڑے کی نسل اور اس کے شجرہ نسب پر روشنی ڈالتا ہی ہے تاہم وہ مرحلہ بہت دشوار گزار ہوتا ہے جب یہ چھکڑے کے حصول کے لئے اٹھائی جانے والی صعوبتوں کا تذکرہ کرتا ہے۔
ان معلومات کی فراہمی کوچوان کے انتہائی معمولی اوصاف حمیدہ کی ادنی ترین نشانیوں میں شمار کی جاتی۔ہیں ۔۔

کوچوان طوالت سفر کی یکسانیت کے خاتمے کی خاطر بین الاقوامی امور اور حالات حاضرہ کے پرنور واقعات بھی دہراتا رہتا ہے
اور یکایک ایک منجھے ہوئے اینکر پرسن کی طرز پر سیاسی پییشن گوئی فرماتے ہی اس کی حمایت کا طلب گار بھی ہوجاتا ہے۔

کوچوان کی باتوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انسان نے اپنی ترقی کے سفر کا آغاز ۔ یقینا ۔ ہوا ۔کےگھوڑے پر ہی کیا ہوگا۔
شاید ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت انسان آج تلک بہت سی باتیں یونہی ہوا میں ہی اچھالتا رہتا ہے۔
تاریخی شواہد گواہ ہیں کہ تانگہ کبھی status symbol ہوا کرتاتھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ۔۔ تانگوں نے گھوڑوں کے وقار کا علم بھی بلند رکھا۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی اگر سرکاری اور سالانہ تقاریب میں بڑے کروفر کے ساتھ سلامی کے چبوترے تلک اگر کوئی جاتا ہے تو یہی تانگہ اور گھوڑا ہی ہے

جبکہ بہت سی جدید سواریاں، کاریں، جیپیں، ٹینک اور توپیں منہ تکتی ہی رھ جاتی ہیں۔

آج کا زمیندار خود سالم ہو نہ ہو، وہ سالم سواری کرنے کے لئے اپنا تانگہ حویلی میں اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اس تانگے گھوڑے کے اخراجات کی دولتیاں بھی تنہا ہی محسوس کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں