پردیس سے لوٹا میرا اک شہری، تحریر: ڈاکٹر انعم پری

میں نجانے کب سے اس پیٹ کی بھوک کو سر پہ لادے پردیس کی خاک چھان رہا تھا مجبور اور لاچار کردیا تھا شاید غربت نے ہمیں!اور پھر شاید مجھے بھی دنیا سےآگے نکل جا نے کا بہت شوق تھا میرے ماں باپ نے مجھے بے حد کرہ وقت دیکھ کر پڑھایا تھا میں آج بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کا “سی-ای-او” ہوں یعنی مالک ہوں اور بہت ہی کٹھن سفر طے کر کے یہاں تک پہنچا ہوں پر حب الوطنی کا ایسابول بالا تھا ذہن میں کہ میں اپنے وطن دوڑا چلا آیا ہم پاکستانی تو میں نے سنا تھا کہ بےحد حساس لوگ ہیں مجھ میں بھی وہی حساسیت تھی میں چاہ کر بھی اپنوں سے دور اور لا پرواہ نہیں رہ پا رہا تھا اپنے دیس کی مٹی کی سوندی سوندی خوشبو مجھے بہت یاد آتی تھی مجھےاپنی ماں (وطن) سے بے انتہا پیار تھا شاید یہ میری گھٹی میں اپنے باپ دادا سے آیا تھا یا ماں نے اپنی پرورش میں گھول کر پلایا تھا پتا نہیں پر میں اپنے گھر لوٹ آیا تھا جب وہاں تھا تب بھی اپنوں کے لیے ھی کمارہا تھا بس انکا ہی خیال تھا نیت صاف تھی تو اﷲ نے نوازا بھی بہت لیکن یہ کیا ہوا یہ میرے ہم وطنوں کو کسی کی نظر لگ گئی تھی نجانے سب کے ضمیر کو کیا ہو گیا تھا یہ میرے دیس میں تو آج جھوٹ بکتا ہے، یا ہر طرف دھوکا ہی دھوکا ہے ، چوری ، رشوت ، زیادتی سب اتنا عام ہو چکا ہے اور پھر اب اچانک کرونا سے آئی تبدیلی نے سب بدل دیا تھا یا یوں کہو وہ بھی میرے دماغ کا دھوکا ہی تھا یا میری آنکھوں پہ کسی نے پردہ ڈال دیا تھا شاید مجھے لگ رہا تھا سب نیک ہو گئے ہیں اک دوسرے کا خیال کررہے ہیں انہیں اک دوسرے کی تکلیف پہ افسوس ہے انسانیت جاگ رہی تھی پر یہ کیا یہ جو میرے اپنے ہیں نا وہ اک بار پھر سر پر کسی دوسرے کا کفن پہنیں بازاروں میں نکل پرے ہیں ظاہر ہے اب عید ہے نا اس عید پے چاہے اپنا کوئی ساتھ چھور جائے یا چاہے کسی بھی گھر ماتم کی صف بھچ جا ئے لیکن ہمیں کیا؟ ہمیں نیا جورا چاہیے!
منا، گڈو کے لیے نیا جوتا بھی اصل میں ہمیں وہی پہنا کر تو اپنے بچوں کو ونٹیلیٹر پے لیٹانا ہے برانڈڈ تو لگے نہ بندہ اب!سانس کی اس نئی مشین پہ لیٹنے سے پہلے کسی برانڈڈ جوتے میں پاؤں ضرور بند ہونے چاہیے!
میرے قریبی ترین دوست اور احباب میں پچھلے سال شادی میں بندھنے والا نیا ڈاکٹر جورا اس سال اپنے پورے خاندان کے ساتھ قرنطینہ کے دن کاٹ رہا ہے انکا سارے تین ماہ کا بچہ جس کے پھیپھرے ابھی شاید صحیح سے پھولنا بھی شروع نا ہوئے تھے باہر سے مسنوعی آکسیجن کے سہارے پر ہے تو کیا ہوا کے اس کے ماں باپ ڈاکٹر ہیں وہ آج بے بسی کے اس نہج پہ ہیں جہاں کوئی بھی انکی مدد نہیں کر رہا اور اور وہ میری دوست کی بیٹی جو خود ڈاکٹر ہوتے ہوے بھی فیصل آباد کے حکومتی ہسپتال میں اپنی آتی جاتی سانسیں گن رہی ہے اور شدیدپریشان ہے کہ کہیں اسکی وجہ سے گھر والوں کو بھی اس تکلیف سے نہ گزرنا پرے کہیں وہ اس عید اپنے کسی اپنے کو نہ کھودیں!
لیکن کیا فرق پرتا ہے !یہ سب تواک پروپیگنڈا ہے!
میں اک حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والاعام انسان !میں آج با حیثیت ذمہ دار شہری بہت شرمندہ ہوں میرا ہر دعویٰ جھوٹا ہے میرا ہر ہم وطنی قاتل ہے وہ اپنے ہاتھ خون سے رنگنے کے لیے تیار بیٹھا ہے!جو بھی اس میں ملوس ہے یقین جانیے مجھے اپنے لوٹ آنے پہ افسوس ہے! یہ وہ پیارا چمن ہے جس میں میں ہمیشہ اپنوں میں لوٹ آنا چا ہتا تھا مجھے لگتا تھا اپنے احساس کا پیکر ہیں وہ میرا خیال کریں گے لیکن کہاں؟ کہاں؟ وہ تو آج عید کی شوپنگ اور ملک کی رونکیں بڑھانے میں مصروف ہیں صحیح ہے سب صحیح ہے!
اب سب بس اﷲ کے حوالے ساتھیو!
یہ عجیب ہے کہ میرے دیس میں الٹی گنگا بہتی ہے جب کرونا کے کیسس صرف نام کی حد تک تھے تب سخت لوک ڈاؤن اور پھر ادھر کیسس بھرتے گئے اور ادھر لوگوں کا ڈر ختم ہوتا گیا اور لوک ڈاؤن بھی!
میرے پیارے ہم وطنوں!کرونا آرام سے نہیں بیٹھا ہے اب یہ صرف آپ کے گھر کے ارد گرد ہی نہیں بلکے آپ کے گھر کے بےحد قریب ہے یا پھر بس آچکا ہےخدارا ذرا نہیں پورا سوچیے !

اپنا تبصرہ بھیجیں