اس آرٹیکل کا مقصد کسی کی نجی زندگی کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہے بلکہ ایک ایسے پہلو کی طرف حیال کروانا ہے جس کی طرف ہمارا معاشرہ خصوصاً نوجوان طبقہ اندھا دُھند اعتماد کرتے ہیں..
محبت اور شادی: ہمارے یہاں محبت کے پیمانے کی آخری حد شادی کو سمجھاجاتا ہے یعنی کہ کسی شخص پر اپنی محبت کی مہر لگانے کا نام شادی ہے. لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ شادی کے بعد محبت ختم ہوجائے تو کیا ہوگا؟ جس سے آپکو محبت ہو, وہ شادی کے بعد آپ سے محبت کرنا چھوڑ دے تو؟ یہ احساس کیا قیامت نہیں ہوتا؟ اور جو انسان اِس قُرب سے گزرتا ہے تو اس کا کیا؟
ہمارے یہاں پھر بھی شادی کو چلایا جاتا ہے, محبت بے شک نہ رہے, لیکن کیونکہ شادی کا کنٹریکٹ ہوچکا ہے تو اب ساری زندگی اُس کے ساتھ رہو جس سے آپکو محبت نہیں رہی صرف معاشرتی پسماندہ سوچ کی بقا کے لئے. جس میں قربانی جذبات کی ہوتی ہے.
ہمارے یہاں ایک اور سوچ ہے کہ شائد بچے پیدا ہوجائے گے تو رشتہ بچ جاۓ گا لیکن رشتہ تو ذمہ داریوں کے بوجھ کی وجہ سے تو بچ جاتا ہے لیکن محبت کی قبر پکی ہوچکی ہوتی ہے
دوسری طرف سائرہ یوسف جیسی خاتون بھی مثال ہوتی ہیں جو بچے کی ذمہ داری بھی لیتی ہیں اور محبت کے بغیر رشتہ سے الگ ہونے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں. ہمارے معاشرے میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں جہاں لوگوں نے جذبوں کو ہر چیز پر فوقیت دی. نقصان اٹھایا لیکن کسمپرسی کی زندگی ایسے شخص کے ساتھ نہ گزاری جس کے دل سے محبت کا جذبہ اسکے لئے ختم ہوگیا ہو
دوسری طرف شہروز ہے جس نے بھی وہی کیا جو دل کو اچھا لگا, بچی کی ذمہ داری کو بوجھ سمجھ کر یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے رشتہ نہیں چلایا بلکہ اس سے شادی کی جس سے محبت ہوگئی اس کو. دونوں ہی غلط نہیں ہیں. دونوں نے اپنے سچے جذبوں کی عزت کی ہے. اب چاہے آپ اسے خودغرضی سمجھیں. لیکن صرف شادی سے ایک دوسرے کے ساتھ ساری زندگی کے لیے باندھ کر نہیں رکھ سکتے. آپ میری تحریر سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن جذبات کی اہمیت سے نہیں. فرق اتنا ہے کہ امیر اپنے جذبات کو اہمیت دے کر رشتہ ختم کردیتا ہے اور غریب جذبات ختم کر کے رشتہ چلاتا ہے
ہمارے یہاں زیادہ تر طلاقیں محبت کی شادیوں میں ہوتی ہیں. کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں کہ ہم شادی کو محبت کی مہر بنا کر بیٹھے ہیں جبکہ اصل چیز جذبات اور احساس ہوتے ہیں جن کا استعمال نوجوانی میں تو سب کرتے ہیں لیکن شادی کے بعد یہ چیزیں انکو امیچیور (غیرسنجیدہ) لگتی ہیں جس کی وجہ سے ایکسڑا میریٹل افیئرز کی باتیں سننے کو ملتی
ہیں
انسانی فطرت ہے کہ جھکاؤ ہمیشہ جذبات سمجھنے والے کی طرف ہوگا اب وہ چاہے شوہر ہو یا عاشق. معاشرے کو اگر اپنی روایات کی بقا کی جنگ لڑنی ہے تو لڑے لیکن شادی کا محبت کا قلعہ سمجھنا چھوڑ دے. محبت کا قلعہ جذبات اور احساس رہے ہیں اور رہیں گے. کہنے کو کتابی یا رومانوی باتیں ہیں لیکن انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں
___________________________________________
جان شیر خان گفٹ یونیورسٹی میں بی ایس ماس کمیونیکیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیزکے طالب علم ہیں اور اپنی یونیورسٹی میں محتلف ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ سیاسی، تاریخی موضوعات اور حالاتِ حاضرہ پر لکھتے ہیں۔ ان کا ای میل پتہ jansherk590@gmail.com ہے