پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے ایک ایسا بل مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کو مزید کارروائی کے لیے بھیج دیا ہے جس میں بچوں سے زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ مجوزہ حکومتی بل پہلے ہی کشمیر کی ریاستی کابینہ سے منظور ہو چکا ہے اور کابینہ میں اتفاق رائے کے بعد گذشتہ روز کشمیر کے وزیر قانون سردار فاروق احمد طاہر نے اسے قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف سے منظوری کے بعد اس بل کو باقاعدہ ووٹنگ کے لیے دوبارہ قانون ساز اسمبلی میں لایا جائے گا۔ اگر یہ بل قانون ساز اسمبلی سے منظوری حاصل کر لیتا ہے تو اس خطے کے صدر اس کی فائنل منظوری دیں گے جس کے بعد اس مجوزہ قانون کا باقاعدہ نفاذ ممکن ہو پائے گا۔
اہم اگر سرجری کے دوران مجرم کی ہلاکت کا خدشہ ہو تو کیسٹریشن (خصی کرنے کا عمل) کیمیکل کے ذریعے کی جائے۔
کابینہ سے منظوری؟
حکومتی وزیر برائے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ و سول ڈیفنس احمد رضا قادری نے صحافی ایم اے جرال کو بتایا کہ انھوں نے سنہ 2018 میں بطور پرائیوٹ ممبر اسی مجوزہ بل کو اسمبلی میں پیش کیا تھا جس پر ضابطے کی کارروائی چلتی رہی اور بعد میں وزیراعظم راجہ فاروق نے اس بل کو حکومتی بل میں تبدیل کرتے ہوئے وزرا اور بیوروکریٹس پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک حالیہ کابینہ اجلاس میں اسی مجوزہ بل کو مختلف تجاویز اور ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا ہے۔
ان کے مطابق اس بل کے ذریعے پینل کوڈ 377A اور 352 اے میں ترامیم کی تجویز ہے جن کے تحت 18 سال کے کم عمر بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو سزائے موت یا عمر قید یا جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی سزائیں دی جا سکیں گی۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
انھوں نے بتایا کہ اس مجوزہ بل پر قانون سازی کے مکمل ہونے کے بعد یہ عدالت پر منحصر ہو گا کہ وہ مجرم کے لیے ان تینوں میں سے کون سی سزا کو تجویز کرتی ہے۔
ان کے مطابق جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کو ان سزاؤں کے علاوہ دس لاکھ سے پچاس لاکھ تک جرمانہ ادا کرنے کی تجویز بھی بل کا حصہ ہے۔
احمد رضا قادری نے بتایا ایسے مجرم جن پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش ثابت ہو گی ان کو دس سال تک قید کی سزا دینے اور دس سے بیس لاکھ تک جرمانہ ادا کرنے کی تجویز بھی بل کا حصہ ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس ترمیمی بل کے تحت عدالت کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ایسے مقدمات کے ٹرائل 60 دنوں کے اندر مکمل کرے اور اگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ فیصلہ ساٹھ دن کے اندر نہ ہو سکے تو عدالت کو مزید 30 دن کی مہلت دی جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ بل کے تحت ایسے مقدمات کی تفتیش اے ایس پی یا اس سے بڑے رینک کا افسر کرے گا۔
احمد قادری نے بتایا اس بل کو دس جون سے شروع ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی سزا کیوں؟
احمد رضا قادری سے جب یہ سوال کیا گیا کہ سزائے موت کے علاوہ دیگر سزاؤں میں جنسی صلاحیت سے محروم کر دینے کی تجویز آخر کیوں شامل کی گی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’بچوں سے جنسی زیادتی انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا سزائے موت یا عمر قید سے بھی زیادہ ہونی چاہے۔‘
انھوں نے کہا کہ میرے نزدیک کسی بھی جرم کی سزا عبرت کے لیے ہوتی ہے ناکہ انتقام کے لیے، اور عبرت کے لیے دی جانے والی سزا کا مقصد یہ ہوتا کہ آئندہ کوئی ایسا جرم نہ کر سکے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے قبل ایسے مجرم کے لیے اس طرح کی عبرتناک سزا نہیں تھی جس سے معاشرے کے دیگر جرائم پیشہ افراد سبق سیکھ سکیں۔
’میرے نزدیک عبرتناک سزا یہ ہے کہ مجرم زندہ رہے اور دوسرے افراد اسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں، اس لیے جنسی زیادتی کے مجرم کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے تاکہ وہ معاشرے دیگر مجرموں کے لیے نشانِ عبرت بن جائے۔‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ‘انصار برنی ٹرسٹ’ کے سربراہ انصار برنی نے اس مجوزہ ترمیمی بل کی کابینہ سے منظوری کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے ملک یا ریاست میں جہاں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے وہاں سزائے موت یا جنسی صلاحیت سے محروم کرنے جیسی سخت سزاؤں کے شدید خلاف ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
انھوں نے کہا کہ جنسی عمل سے محروم کرنے کی سزا پر دنیا ہمارا مذاق اڑائے گی، ہم پر انگلیاں اٹھیں گی کیونکہ دنیا میں اس بات کا تصور نہیں، کوئی اس متعلق سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی کسی کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دے۔
انھوں نے کہا کہ ایسا کرنا ان خواتین کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی جو سزا پانے والے مرد کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوں گی یا ایسا کرنے جا رہی ہوں گی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل سردار کرم داد خان کا کہنا ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرم کو سزا دینے کے لیے پہلے ضیا دور میں 12ZA کا قانون نافذ کیا گیا جیسے اسلامک لا کہا جاتا ہے جس کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کے لیے سزا سزائے موت تھی، جبکہ اس کے بعد پینل 377A نافذ کیا گیا جو نیپولین کوڈ سے لیا گیا جس کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کی سزا دس سال قید رکھی گی مگر یہ قوانین اتنے موثر نہیں کہ اس غیر انسانی فعل کو روکا جا سکے۔
’ہم نے دیکھا یہ جرم معاشرے میں روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس جرم کی نہ کسی معاشرے اور نہ کسی مذہب میں گنجائش ہے میرے نزدیک اس کی جتنی سخت سزا تجویز کی جائے کم ہے، قانون سازی کرنے والے اس سزا کا طریقہ کار بھی واضح طور تجویز کریں تاکہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہو۔‘
سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل طاہر عزیز خان نے کہا کہ یہ بل ابھی قانون ساز اسمبلی میں پیش ہو گا، اسی لیے جب تک یہ اسمبلی سے منظور نہیں ہوتا اس پر قانونی رائے دینا ممکن نہیں۔