دنیا کے دو ایسے ہتھیار ہیں۔ جو ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ ایک بیوی کے آنسو اور دوسرا پڑوسن کی مسکراہٹ، پڑوسن دیکھ کر اگر مسکرا دے تو بھی بچنا چاہیے، اگر نہ بھی مسکرائے تو بھی بچنا چاہیے۔ اگر آپ کسی خاص کام سے گھر سے نکلے ہیں، اور پڑوسن نے آپ کا رستہ کاٹ لیا ہے، تو اس دن وہ کام کرنے سے بھی بچنا چاہیے۔ پڑوسن کسی وبا کا نام نہیں، لیکن وبال جان ضرور کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پڑوسن اگر حسن کا پٹولہ ہو تو گھر میں روز پکا آپ لتر پولا، پڑوسن اگر مکار تو آپ کو رہنا ہوگا ہوشیار، پڑوسن اگر باتونی تو ہو گی آپ کو پریشانی، پڑوسن اگر ہو اچھی تو ہو سکتی آپ کی چھٹی۔
کچھ لوگوں کو پڑوسن کی شکل میں اپنا چاند نظر آتا ہے۔ اور مجھ جیسوں کو پڑوسن کی باتوں سے تارے۔ ویسے بھی ضروری نہیں کہ ہر رشتہ خون کا ہو، کچھ رشتے باتوں کی وجہ سے ہی خونخوار لگتے ہیں۔ پڑوسن دو طرح کی ہوتی ہیں، جن کے منہ پر ہلکا سا میک اپ ہوتا ہے اور جن کا میک اپ میں ہلکا سا منہ ہوتا ہے۔ ہلکا میک اپ والی آپ کو دیکھ کر اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتی ہے، اور میک اپ والی آپ کو دیکھ کر چھپ جاتی ہے، فکر نہ کریں دونوں ہی خطرناک ہوتی ہیں۔ ہلکا میک اپ والی دوپٹہ ٹھیک کرنے کے بہانے ، آپ کی ہر ظاہری بات بھانپ لیتی ہے۔ اور چھپنے والی، آپ کے چھپے راز جاننے میں لگ جاتی ہے۔ ویسے بھی راز کے معاملے میں پڑوسن کا پیٹ کافی ہلکا دیکھنے میں آیا ہے، اور وہ صرف ایک راز رکھ سکتی ہے، اور وہ ہے اپنے کرتوتوں کا راز ۔
پڑوسن ہمارے معاشرے میں ایک دل افروز کردار ہے۔ جس کی حرکتیں معشوقانہ حد تک مشکوک اور باتیں بہت ہی معیوب لگتی ہیں۔ تو ہم نے بھی ٹھانا!!! کہ ان پر سرار باتوں کو آپ کی سہولت کے لیے سامنے لانا چاہیے۔ یہ تو ہم سب کو پتہ ہے، کہ دوپہر کو پڑوسن اپنے اپنے شوہروں کی برائیاں کرتی ہیں، اور شام کو شوہر سے پڑوسن کی۔ جو پڑوسن کسی کی غلطی معاف کر دیتی ہے، وہ کم از کم پاکستان میں کیا، پاکستان کے ڈراموں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ پاکستان میں جو لڑکیاں ریاضی میں بہت اچھی ہوتی ہیں وہ شادی کے بعد کمیٹی والی پڑوسن۔ بن جاتی ہیں۔
پر آج موضوع ان کی گفتگو ہے۔ ایک دن ان گنہگار کانوں نے ان دونوں کی نوک جھوک سنی۔ زیادہ میک اپ والی نے کہا میرے پاس کار ہے، کوٹھی ہے، بینک بیلنس ہے، تمہارے پاس کیا ہے ؟ دوسری نے مسکراتے ہوئے کہا، میں نے بیس سال پہلے جو اپنی شادی پر سوٹ سلوایا تھا، وہ آج بھی مجھ پر فٹ ہے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان گہری خاموشی چھا گئی۔ اسی شام میں نے متاثرہ پڑوسن کو ایک بڑے شاپنگ مال کی مہنگے کپڑے والی دکان میں دیکھا۔ سیلز مین ان سے پوچھ رہا تھا آپ کو کیسا سوٹ دکھاؤں؟ اور پڑوسن نے کہا کہ ایسا کہ میری پڑوسن اسے دیکھتے ہی تڑپ کے میرے قدموں میں گر جائے۔
خیر بدلہ لیکن انہوں نے تاریخی لیا، کیونکہ میں نے انھے کہتے سنا، وہ اپنی پڑوسن کو کہہ رہی تھی، تمھیں معلوم ہے، بیس سال تک میری کوئی اولاد نہیں ہوئی، دوسری نے حیرت سے پوچھا پھر تونے کیا کیا ؟ اس نے کہا پھر میں اکیس سال کی ہوئی تو میرے پاپا نے میری شادی کئ۔ پھر جا کے منا ہوا۔ اور دوبارہ خاموشی چھا گئی۔ اسی طرح ایک دفعہ ہلکے میک اپ والی نے اپنی پڑوسن سے کوئی کتاب مانگی۔ اس نے کہا میں اپنی کتاب کسی کو نہیں دیتی، جس کو پڑھنا ہو یہاں آکر پڑھ لے ۔ کچھ دن بعد ذیادہ میک اپ والی کو جھاڑو کی ضرورت پڑی، اس نے اپنی پڑوسن سے جھاڑو مانگا، تو اس نے بھی بتدریج کہا میں اپنا جھاڑو کسی کو نہیں دیتی، جس کو لگانا ہو یہاں آ کر لگا لے۔
اپ بھی سوچتے ہوں گئے کھودا پہاڑ نکلا چوہا
خیر یہ تو چند باتیں تھیں لیکن بتانا یہ مقصود ہے پڑوسن کیسی بھی ہو چاہے ہلکے میک اپ والی یا زیادہ والی ۔ کمیٹی والی یا مسکرا کے راز نکالنے والی ان کے میاں بیچارے مظلوم ہی ہوتے ہیں۔
______________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں می ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصاہے۔
Load/Hide Comments