قاسم علی شاہ کے نام، تحریر: ثناء آغا خان

قاسم علی شاہ عہدحاضر کے ایک منجھے ہوئے مدبر ،پرتاثیرمقرراورزبردست مصنف ہیں۔ہمارے معاشرے کاہروہ فردجس کوکوئی نہ کوئی جستجو،تلاش اورپیاس ہے وہ انہیں سنتا،سیراب ہوتا اوران سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔وہ مایوس اورناامیدافراد کی راہوں کو روشن کررہے ہیں ۔میرے نزدیک کامیاب انسان وہ ہے جودوسروں کوکامیاب بنانے کیلئے انہیں تعلیم وتربیت دے ۔قاسم علی شاہ نے ہزاروں ہم وطنوں کی کایا پلٹ دی ہے ۔قاسم علی شاہ کی علمی اورقلمی صحبت سے سیکھنا میراسرمایہ افتخار ہے۔پچھلے دنوں ان سے ایک مختصرملاقات ہوئی توانہوں نے اپنے مخصوص اندازمیں قیمتی نصیحت اوراپنی خوبصورت کتاب ”ٹیچر سے ٹرینرتک”سے نوازا،میں سمجھتی ہوں اس طرح کاتحفہ نصیب سے ملتا ہے ۔میں ان کی کتاب ”ٹیچر سے ٹرینرتک”سے چندسطور آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر کررہی ہوں ۔
قاسم علی شاہ نے اپنے جذبات واحساسات سپردقرطاس کرتے ہوئے لکھا ہے ،”جب اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ شعور بخشاکہ مجھ کو جو کام کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے وہ دوسروں کی رہنمائی کرنا ہے تو تب مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ کام کس طرح کیا جاتا ہے۔میں نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ میں تو بس یہ جانتا تھا کہ مجھے ہرصورت یہ کرنا ہے۔ ایک خواہش دل میں تھی ایک جذبہ تھا۔میرے پاس جو لوگ آتے تھے ان سب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ٹریننگ انڈسٹری میں قدم رکھنے والے کا لکھاری ہوں’ مقرر ‘ سیمینار لیڈر’ کوچ اور آن لائن مارکیٹر تقریبا ًسب ہی کچھ ایسی مشکلات کا شکار رہتے ہیں”۔ میں نے اس کتاب کامطالعہ ابھی ابھی ختم کیا ہے،اس کتاب میں پڑھنے اورسیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے ،میں یقینااس کتاب کودوبارہ ضرور پڑھناچاہوں گی اورآپ کوبھی مطالعہ کی دعوت دوں گی۔
قاسم علی شاہ کی کتاب” ٹیچر سے ٹرینر تک” میں میرے بہت سے سوالات کے جوابات اس طرح موجود تھے جیسے انہیں معلوم ہو کہ میں کچھ تلاش کرنے اوراپنی علمی پیاس بجھانے نکلی ہوں۔کچھ دن پہلے جب قاسم علی شاہ سے ملاقات ہوئی تو بہت سے سوالات میرے ذہن میں یکجا تھے۔مجھے ہمیشہ سے کامیاب لوگوں سے ملنے کا اشتیاق رہا ہے ہمیشہ کی طرح اپنے مسکراتے چہرے اور پرخلوص لہجے کے ساتھ ہمارے مختلف سوالات کے جوابات دیے اور واپسی پر ایک خوبصورت کتاب کابیش قیمت تحفہ دیا۔جن پر ان کے ہاتھوں سے لکھی تحریر ”میری پیاری بہن ثناءآغاخان کیلئے سلامتی کی دعا ”،میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں قاسم علی شاہ کی مختلف تصانیف میں نے پڑھی ہیںان میں سے” اپنی تلاش”اور” اونچی اڑان” ‘قابل ذکر ہیں۔ٹیچر سے ٹرینر تک میں قاسم علی شاہ نے بہت خوبصورتی سے اپنے ابتدائی دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں استاد کس طرح بنا۔کس طرح میں نے اپنی پوسٹ میں سے ایک ایڈورڈ خریدا اور اپنے ہی گھر آج میں ایک چھوٹا سا پانچ کرسیوں پر محیط ٹیوشن پر بنایا۔اس محنت کو وہی جانتا ہے جس نے اتنی ریاضت کی ہو۔آج قاسم علی شاہ میدان تعلیم کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں کچھ سیکھنے کو نہ ملے عاجزی اور انکساری ان کے چہرے سے نور بن کے چھلکتی ہے۔
اس نشست میں میرے ذہن میں آن لائن ہونے والی کلاس کے بارے میں بہت سے سوالات تھے۔سو میںنے ان سے یہ سوال کیا کہ آن لائن کلاسز کے فائدے اور نقصانات کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے۔جس پر انہوں نے جواب دیا سے آن لائن کلاسز کے کچھ چیلنجز ہیں اور سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہمارے بچے ذہنی طور پر اس کیلئے تیار نہیں تھے۔جو بچے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور گیجٹس سے واقف تھے ان کیلئے تو یہ بہت آسان چیزیں تھی مگر جو بچے ان سب چیزوں سے واقف نہیں تھے ان کیلئے بہت مشکل ہے یہی حالات ہماری ٹیچرز کے ساتھ بھی رہے،ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف نہیں ہے اور جب واقف نہیں ہوتے تو یہ سب چیزیں موجود ہونے کے باوجود بھی آپ اتنا اچھا پرفارم نہیں کر پاتے اور بچے اسے غیر سنجیدہ لینا شروع کر دیتے ہیں جیسے بہت سے بچوں نے مجھے بتایا کہ جب آن لائن کلاسز شروع ہوئیںتو ان کیلئے سب کچھ بہت مزاحیہ تھا۔کچھ ٹیچرزکو سکول میوٹ کرنا نہیں آتا تھا چہروں کے تاثرات صحیح نہیں آتے تھے اور دوسری بات یہ کہ جب استاد بورڈ پریزینٹ کرتا ہے تو اسے تجربہ ہوتا ہے اور جب انٹرنیٹ اور گیجٹس کا استعمال کرکے پڑھانا پڑا تو اس کا بہت سی ٹیچرز کے پاس تجربہ نہیں تھا ۔ہمیں اپنی ٹیچرز کو بھی تیار کرنا پڑے گا کہ اس ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال کرنا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ جو ہمارا مانیٹر کرنے کا طریقہ ہے ٹیسٹ سیشن یااسسمنٹ کا طریقہ جو کہ عام طور پر سکولوں میں استعمال کیا جاتا ہے اس کے ذریعہ ممکن نہیں ہو پایا۔ جب استاد کام کروائے اور اس کو صحیح طریقہ سے دیکھا نہ جا سکے یااس کو چیک نہیں کیا جاسکے تو بھی غیر سنجیدگی کا رد عمل ظاہر ہوتا ہے اس طرح کے بہت سے مسائل آن لائن کلاس سے پیدا ہو رہے ہیں۔قاسم علی شاہ کے مطابق آنے والے دورمیںآن لائن کے سواکوئی آپشن نہیںہوگا، مگر اس سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو عملی اور دماغی طور پر تیار کرنا ہے ۔یہ عہدحاضر کا سب سے اہم مسئلہ ہے جو کہ ہر بچے کو پیش آ رہاہے ۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہم ان سب پر عبور حاصل کر لیں گے ۔آج ہم جن باتوں سے پریشان ہو رہے ہیں وہی باتیںکرتے ہوئے ہم کل ہنسیں گے کہ اس کی ابتداءہم نے کس طرح کی تھی۔ میں سمجھتی ہوں میرا یہ کالم ان تمام بچوں کی رہنمائی ضرور کرے گا جن کو آج کل آن لائن کلاسز میں مسائل درپیش ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں