آج کے موجودہ حالات میں جہاں لوگوں کے بنے بنائے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔
لوگوں کو خیرات دینے والے آج بمشکل اپنے ہی گھر کے خرچے پورے کر رہے ہیں۔
چھوٹے کاروبار والے، ریڑھیوں والے اور مزدور فاقوں پر مجبور ہیں ۔
ہر طرف افراتفری اور خود غرضی نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔
پرائیویٹ سکول مافیا ہماری ہی طرح کے پڑھے لکھے نوجوان ٹیچرز کو آدھی تنخواہ دے کر ٹرخا رہے ہیں حلانکہ انکی تو پوری تنخواہ بھی ہم سرکاری ملازموں کی تنخواہوں سے بہت کم ہے۔
بہت سارے لوگ اپنے بچوں کے پیٹ کی خاطر ہر طرف پھیلی بیماری کے باوجود گھر سے باہر نکل کر روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔
اگر میں ساری بحث کو سمیٹوں تو حاصلِ بحث یہ نکلتا ہے کہ پاکستان کی بیشتر آبادی روزگار کے حوالے سے تنگ ہے۔ انکی آمدن پہلے سے بہت کم ہو گئی ہے یا بالکل ہی رُک گئی ہے۔
لیکن اللہ نے ہم سرکاری ملازمین خصوصاً ٹیچرز کو اتنے مشکل حالات میں بھی کسی آزمائش میں نہیں ڈالا۔
ہمیں ہماری مکمل تنخواہ گھر بیٹھے مل رہی ہے
باقی ملازمین کی طرح ہمیں گھر سے نکلنا نہیں پڑ رہا۔
آج کل ہم نوکری کی ہر طرح کی زمہ داری سے آزاد ہیں۔
تو ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم اتنے مزے میں ہونے کے باوجود ناشکری کرتے ہوئے تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر واویلا کریں ۔حکومت کو کوسیں۔احتجاج کریں یا اپنے ساتھیوں کو احتجاج ہر اکسایں۔
الحمدللہ ہمیں جو مل رہا ہے وہ بہت ہے اسکے علاوہ انسان کے پیٹ کو تو پھر قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔
آپ میں سے اکثر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ہم تنخواہیں لے ریے ہیں تو حکومت کے وزیر مشیر اور دوسرے عہدے دار تو ہم سے کہیں زیادہ کماتے ہیں۔بالکل ایسا ہی ہے لیکن اللہ ہمارے اطمینان اور دل کے سکون کی خاطر ہمیں خود سے کمتر کی طرف دیکھنے کا حکم دیتا ہے۔ آج ہم پر اللہ کی رحمت جس قدر ہے اور جتنی موج میں ہم ہیں اس سے زیادہ موج میں بہت تھوڑے لوگ ہیں۔ لیکن ہم سے کم کمانے والے اور مشکلات میں مبتلا لوگوں کی تعداد ان گنت ہے۔
اللہ ہمیں دل سے شکر کرنے کی توفیق دے۔جو اور جتنا موجود ہے اس پر ہمارے دلوں کو مطمئن ہونے کی توفیق دے۔ ہمیں اپنے کمزور بہن بھائیوں کی مدد کرنے کی توفیق دے اور دنیا سے اس وبا کو جڑ سے ختم کر کے حالات کو معمول پر لے آئے آمین۔
Load/Hide Comments