جنوبی ایشیا کی موجودہ خطرناک جیو سٹرٹیجک صورت حال میں جب کہ چین اور انڈیا کی افواج کے مابین لداخ و تبت سیکٹر میں کئی جھڑپیں ہوچکی ہیں۔اس وقت بھی دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے آ منے سامنے کھڑی ہیں اور جنگ کا ممکنہ خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔تاہم یہ امر خوش آ ئند ہے کہ گزشتہ دنوں سے اس سرحدی تنازعے کو دونوں فریقین کی طرف سے مزاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات بھی کی جارہی ہے۔ دوسری طرف انڈین فوجی و سیاسی قیادت پاکستان سے آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان آذاد کرانے کی کرانے کی بارہا دھمکی دی چکی ہے ۔لائن آ ف کنٹرول پر دونوں طرف سے روزانہ فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں دونوں طرف جانی و مالی نقصان کو ہو رہا یے۔پاکستانی وزیرآعظم بار بار دنیا کو انڈیا کی طرف سے فالس فلیگ آپریشن کرنے کے خدشے کا اظہار بھی کررہے ہیں اور ماہرین پاکستان اور انڈیا کے مابین محدود یا فل سکیل جنگ کے امکانات بڑھتے ہوئے دیکھ رھے ہیں ۔ ان حالات میں پاکستان کے نیوکلیر پاور ہونے کی قدرو اھمیت دوچند ہوگئی ہے۔کیونکہ روائتی جنگ میں بھارت کا پلہ بھاری ہے اور یہ نیوکلئیر صلاحیت ہی پاکستان کے کسی بھی دشمن کو اسکے خلاف جارحیت سے روکنے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان نے انڈیا کے جارحانہ عزائم کے پیش نظر ہی دفاعی حکمت عملی کے طور انڈیا کی طرف سے 13 مئ 1998کو ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد 28 اور 30 مئ کو ایٹمی دھماکے کر کے نیوکلیر پاور بننے کا فیصلہ کیا ۔اس وقت دنیا میں 8 ممالک نے اپنے آپ کو نیوکلیر پاور ڈیکلیئر کیا ہوا ہے جس میں سے 5 ممالک امریکہ، روس،چین،برطانیہ اور فرانس نے این پی ٹی پر دستخط کئے ہوئے ہیں جبکہ 3 ممالک انڈیا،پاکستان اور جنوبی کوریا این پی ٹی میں شامل نہیں ہیں۔جبکہ اسرائیل کے بارے میں ماہرین کی یہ رائے ہے کی وہ بھی نیوکلیئر پاور کا حامل ہے لیکن اپنے سیاسی ودیگر مفادات کے پیش نظر اسکا اعلان نہیں کررہا۔اسکے پاس تقریباً 75 سے 400 وار ہیڈز ہیں۔جنوبی افریقہ نے صلاحیت حاصل کر کے این پی ٹی میں شامل ھونے پر اپنے وار ہیڈز کو dismental کردیا۔سٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مجموعی طور پر 13,865 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جن میں سے نوے فیصد سے زائد امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔انڈیا کے پاس ایک اندازے کے مطابق 110 سے 140 اور پاکستان کے پاس 130 سے 160 وار ہیڈز موجود ہیں جو کہ دنیا کے مجموعی وار ہیڈز کا 2 فیصد بنتا ہے۔جبکہ انڈیا کے پاس وار ہیڈ لے جانے کیلئے 150 سے 600 کلومیٹر رینج والا پرتھوی میزائل اور 700 سے 8000 کلومیٹر رینج والا اگنی میزائل ہے۔پاکستان کے پاس 300 سے 700 کلومیٹر رینج والے ابدالی و حتف اور 900 سے 3000 کلومیٹر رینج والا شاہین میزائل ہے۔پاکستان ائیر فورس کے پاس وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت کے حامل 36 اور انڈین ائیر فورس کے پاس 46 جنگی طیارے ہیں۔جبکہ پاکستان نیوی کے پاس 8 کروز میزائل بردار بحری جہاز اور انڈین نیوی کے پاس 14 کروز میزائل بردار بحری جہاز موجود ھیں۔اب اگر ایک مختصر سا جائزہ لیں کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور انڈیا کے مابین نیوکلیر وار ہوتی ھے تو ممکنہ طور پر دونوں ممالک اور دنیا کو کیا نقصانات ہو سکتے ہی۔نیوجرسی یونیورسٹی امریکہ کے ماہر ماحولیات پروفیسر ایلن روبوک کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگر دونوں ممالک ہیرو شیما پر پھینکے جانے والے 15 کلو ٹن وزنی “لٹل بوائے”نامی جیسے 150 / 150 وارہیڈز ایک دوسرے پر استعمال کرتے ھیں تو پاکستان اور انڈیا کے بیشتر بڑے شہر تباہ اور 50 ملین افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔اور 100 کلو ٹن پاور کے وار ہیڈز کے استعمال کی صورت میں 125 ملین افراد جان سے جا سکتے ہیں۔جبکہ ایک ارب کے قریب آبادی معذوری و دیگر امراض کا شکار ہوسکتی ہے۔اس نیوکلئیر وار سے دنیا کو جانی ‘مالی ‘ نفسیاتی و معاشرتی نقصانات کے علاؤہ شدید ڈرامائی ماحولیاتی و موسمی تبدیلیوں کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔محقق کے مطابق اوذون لیئر شدید متاثر ہوگی اور فضاء میں پھیلنے والی آ لودگی اور کالے بادلوں سے سورج کی توانائی انتہائی کم ہونے سے درجہ حرارت آئس ایج کے دور کی سطح 5 سنٹی گریڈ تک گر سکتاہے۔اور اس ٹمپریچر کو نارمل سطح پر آ نے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ھیں۔جس سے ایشیا اور پوری دنیا میں زراعت شدید متاثر ہوگی اورخوراک کا شدید بحران پیدا ہو سکتاہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی سمندری ماحولیاتی نظام اور مچھلی کی پیداوار کیلئے بھی تباہ کن ہو گی اور اس وجہ سے دنیا قحط کا شکار ہو سکتی ہے۔سورج کی انرجی کم ھونے سے دنیا بھر میں بارشوں میں 30 فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق اس طرح کی موسمیاتی تبدیلی پہلے بھی آ چکی ہے لیکن وہ انسانوں کے ہاتھوں نہیں آئی تھی بلکہ قدرتی تھی۔ جب 66 ملین سال پہلے جوہری سیارچے کے کریش کے نتیجے میں بلینز ٹن سلفر فضاء میں پھیلنے سے دنیا کا ٹمپریچر انتہائی نچلی سطح پر گرگیا۔ ماہرین کہتے کہ اسں ماحولیاتی تبدیلی نے ڈائنو سار کی نسل کو معدوم کرنے کے عمل کو تیز کر دیا تھا۔تحقیق کے مطابق محدود نیوکلئیر وار کی صورت میں بھی اوزون لئیر شدید متاثر ہوگی اور الٹرا وائلٹ ریڈییشن کی وجہ سے ٹمپریچر 25 سال تک کم از کم سطح پر آجائے گا جس سے صرف یہ خطہ نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہوگی۔عام حالات میں بھی اور خاص طور پر ان امور کو پیش نظر رکھ کر کوئی بھی باشعور قیادت دنیا کو اس ہولناک تباہی سے دوچار نہیں کرنا چاہیے گی۔ لہزا اقوام متحدہ ،یورپی یونین، برطانیہ اور خاص طور پر امریکہ کو اپنے مخصوص مفادات کے باعث مودی کو تھپکی دینے کے بجائے دنیا کے اس نیوکلئیر فلیش پوائنٹ پر فوری توجہ دیتے ہوئے اس خطے کے تنازعات کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرنے چاہیے ۔دوسری جنگ عظیم بھی ھٹلر کے جارحانہ عزائم کو بروقت نہ روکنے کی وجہ سے دنیا میں تباہ کن جانی معاشرتی و معاشی تباہی کا باعث بنی تھی۔بدقسمتی سے آج نریندرمودی اسی ڈیزائن کو لیکر آ گے بڑھ رہا ہے ۔اپنی جارحانہ پالیسیوں کے تحت کہیں پاکستان کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حق ارادیت دینے کے بجائے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے تو کہیں چین ،نیپال،بھوٹان اور بنگلہ دیش کے علاقے ہڑپ کرنے کی کوشش میں ہے اسی وجہ سے نیپال کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک نیا نقشہ پاس کیا ہے جس میں انڈیا کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے متنازعہ علاقوں کو نیپال کا حصہ دیکھایا گیا ہے۔جنوبی ایشیاء کے ان حالات کے پیش نظر دنیا کی مقتدر قوتوں اور اداروں کو دوسری جنگ عظیم سے سبق سیکھتے ہوئے مودی کی جارحانہ پالیسی کا نوٹس لیتے ہوئے فوری راست اقدامات کرنے چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ 20 ویں صدی کا یہ ھٹلر دنیا کیلئے تیسری جنگ عظیم شروع کرانے کا باعث بن جائے۔
Load/Hide Comments