بھیڑ چال، تحریر: ثناء آغا خان

تاریخ گواہ ہے پاک و ہند کے قبائل میں بے جا رسومات کلچر کے نام پر فرض سمجھ کر ادا کیے جاتے رہے۔آج بھی بہت سی فرسودہ رسومات ایسی ہیں جن کے تلے دبے خاندان نسل در نسل اپنی زندگی کا ایک حصہ اسے ادا کرنے کے لیے صرف کرتے ہیں ۔اور ان رسومات کو اپنے اوپر ایسے ہی فرض کر لیا جیسے نماز’ روزہ’ زکوۃ’ حج اور دنیا دکھاوا ۔ہم ان قوموں میں سے ہیں جو آج کل کا سوچتی ہیں اور کل کا سوچ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ آنے والی نسلیں اسی سوچ کا بھار اٹھاتے ہوئے مادیت پسندی کی طرف جا رہی ہے۔عیدیں’ شب براتیں سالگرہ’شادیاں ‘یہاں تک کہ مرنا بھی لوگوں کو خوش کرنے اور اپنا خاندانی حسب نسب دکھانے کے لئے ہم لوگ کیا کچھ نہیں کرتے ۔
ہم انسانوں نے اپنے آپ کو ان الجھنوں میں الجھا رکھا ہے جو ہماری سوچ کا تانا بانا ہے۔ ہم اس بیماری “دنیا کیا کہے گی” کو اہمیت دے کر اپنے آنے والی نسلوں میں نفسیاتی خلش پیدا کر رہے ہیں ۔بیٹی ہے تو اس کی شادی کیلئے جہیز اکٹھا کرنا ہے اور جہیز بھی وہ دینا ہے جو خاندان میں کسی کی بیٹی کو نہ ملا ہو ۔اور اگر بیٹا ہے تو اس کی شادی اس قدر دھوم دھام سے کرنی ہے کہ کسی نے اس سے پہلے ایسی شادی دیکھی نہ ہو۔ شادی ہوگئی اب جو نظریہ ہمارے ماں باپ کا تھا اسی نظریے سے لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پرکھیں گے ایک دوسرے کو چیزوں میں تو لیں گے ۔یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے آج طلاق کی شرح حد سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے۔
جس معاشرے میں بچے کی پیدائش سے لے کر اس کا تعلیمی کیریئر ‘ادارہ ‘استاد’ دوست سب کے چناؤ کیلئے ایک سٹیٹس بنا دیا جائے وہاں تیسرے درجے کے انسان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔اس نفسیاتی مسئلے سے ہمیں جان چھڑوانی ہوگی ۔
اگر معاشرے کی غلط رسم و رواج کو ہم نہ اپنائیں اور سب یک زبان ہو کر ہمت کریں ۔ہم ہر وقت حکومت اور اس کے نااہل ہونے کے قصیدے سنتے رہتے ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ تبدیلی ہمیشہ اوپر سے ہی آئے۔ اگر ہم یہ کاوش اپنے گھروں سے شروع کریں تو تبدیلی کبھی کبھی نیچے سے بھی آ سکتی ہے ۔جن کو اللہ تعالی نے خوب نوازا ہوا ہے اور اللہ تعالی کا ان پر خاص کرم ہے وہ اگر یہ سوچ لے کہ ہم ایسا کوئی اقدام نہ کریں جسے دیکھ کر معاشرہ ہماری گردان پر چلنے گی کوشش کرے ۔زندگیوں کو آسان بنائے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لئے بھی۔
کل کائنات عرش و فرش کے شہنشاہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے سامنے مکمل اور جامع نمونہ ہے ۔انہوں نے کبھی کھانا کھاتے ہوئے دو قسم کی اشیاء نوش نہیں فرمائی ۔ضروریات زندگی اتنی مختصر، کیا وہ جن کے ایک اشارے پر سورج اپنا رخ موڑ لے فرشتے جن کے گھر کا پانی بھرتے ہیں وہ کو محل نہیں بنوا سکتے تھے ۔کاش ہم صرف مسلمان بن کر سوچیں کہ جب ہمارے نبی کی یہ شان ہے تو ہم کیوں اپنی زندگیوں کو خود ساختہ آزمائشوں میں ڈالے ہوئے ہیں.
اس فرسودہ نفسیاتی معاشرے میں دینی اور مذہبی فرائض بھی نمودونمائش کا شکار ہو چکے ہیں۔ماں باپ کی ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کروانی ہے کس مدرسے سے رابطہ کیا جائے ؟نکاح کروانے کے مولوی صاحب کتنے پیسے لیں گے ؟چالیسویں پر کیا پکایا جائے کہ معاشرہ خوش ہو جائے؟ یہاں تک کہ درگاہوں پر بھی اس کمزور ذہن معاشرے کو آزمانے کے لئے بہروپیے بیٹھے ہیں ۔جو ہماری نفسیات سمجھ کر ہم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔وہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ دین سے بڑھ کر رسم و رواج کو اہمیت دیتے ہیں۔
بے جاخواہشات’ توقعات’ لالچ فرسودہ دماغ کی بوئی ہوئی فصلیں ہیں ۔جن کو دقیانوسی رسم و رواج بار بار پانی دے کر پروان چڑھاتے جا رہے ہیں ۔ اس کا بیج دل سے جڑ پکڑ کر ذہنوں کو ایسے جکڑ لیتا ہے کہ انسان اچھائی اور برائی کا فرق کئے بغیر سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔حلال اور حرام کا فرق یہیں سے زائل ہوتا ہے ۔
عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات سے اگر ہم ابتدا کریں تو قطرہ قطرہ کر کےسمندر بن جاتا ہے اس سادگی کلچر کو اپنا کر ہم اپنی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں جس میں میرا ساتھ دیے گی تمام نوجوان نسل بائیکاٹ کیا جائے گا ان تمام نمود و نمائش کا جس کی مزاحمت ہمارا مذہب بھی کرتا ہے ۔یقین آج کی نوجوان نسل غلط اور صحیح کا فرق سمجھتی ہے۔اور سمجھا سکتی ہے ان تمام ضعیف دماغوں کو کی سادگی انسان کو بہت سی معاشرتی برائیوں سے بچا سکتی ہے ۔آج اگر تمام نوجوان نسل یک زبان ہو کر جہیز کے نام پر ہونے والی بے جا نا انصافی کو مسترد کر دیں اور شادیوں پر ہونے والی نمود و نمائش کو اپنانے سے انکار کر کے قرض کی ادائیگی کو مدنظر رکھ کر سنت ادا کریں تو ثواب کا ثواب اور فرض کی ادائیگی بھی آسان ہو جائے گی اور معاشرہ بہت سے گناہوں سے بچ جائے گا ۔
بس ایک آواز اٹھانے کی دیر ہے ۔کیونکہ اس نمودونمائش کی چکی میں پسنے والے اب تنگ آ چکے ہیں ۔صرف اس فرضی شیشے کو توڑنا ہے جو سماج کے نام پر ہمیں استعمال کیے جا رہا ہے ایک شعور کا دیا جلانا ہے سادگی میں آسانی ہے اور آسان زندگی ہر کوئی گزارنا چاہتا ہے بس اپنے ذہنوں سے معاشرے کے بت کو نکال کر توڑنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں