ابھی کچھ دن لگیں گے، تحریر: افشین قریشی

بیمار ہوئے کوئی ہفتہ بھر ہو گیا۔ موت کے منہ سے شاید نکل آئی ہوں یا ابھی بھی امتحان باقی ہے. تاریک کمرہ اور شب غم جس کی سحر نہیں ہوتی یا ہوتی بھی ہے تو میرے گھر نہیں ہوتی. اکھڑتی سانسیں دل مدھم، نقاہت، بے بسی اور آنکھ پرنم، کوئی قابل ذکر یاد نہیں، نہ متاعِ حیات، کہ کوئی زندگی کی رمق ہو باقی۔ پل بھر کو آنکھ لگتی اور چونک کر اٹھ جاتی ہوں جیسے میری قبر نے کروٹ لی ہو اور پھر آنکھ کھل جاتی ہے تو دل خشک پتے کی طرح لرزنے لگتا ہے کہ جیسے دل پر زیادہ بوجھ پڑا تو اپنے تمام تر سلے ہوئے زخموں سمیت ہوا ہو جائے گا اور یہ تو کب سے روئی کےگالوں کی طرح اڑتا رہتا ہے۔ درد بھی ہے اور دکھتا بھی نہیں۔ فون بجتا ہے مگر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی، خیریت دریافت کرنے پر چند جملوں کے بعد بات مکمل کرکے فون رکھ کر سانس بحال کرتی ہوں اور بیماری کا احساس گو ختم نہیں ہوا مگر کم ہوا ہے۔ گزشتہ دن رات جو گزر گئے وہ بے یقینی کے تھےجیئے جانا اور نہ چاہتے ہوئے بھی جینے کے لئے ہاتھ پاؤں مار کے بیماری سے لڑتے رہنا شاید اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ زندگی تھم جائے تب بھی ہم جیئے جا رہے ہیں کہ جب تک وقت پورا نہ ہو جائے۔ شاید ہی کوئی آزمائش ایسی ہو جس سے لڑ کر موت کو شکست نہ دی ہو اور پھر سے ڈھیٹ بن کر جیئے جا رہی ہوں۔ چاہے کتنی ہی دل شکستہ ہوں، ارے یہ تو ابھی تک اتراتی پھر رہی ہے۔ چاہے آنکھوں کے رتجگے اور آنسو سرمے سے سیاہ رات بنا دوں ارے اس پر تو کوئی فرق نہیں پڑا نہ زندگی کے ماہ و سال کا، نہ دوڑ ودھوپ کے عذابوں کا نہ گریہ آہ و زاری کا، نہ جفاؤں اور دل آزادی کا، کتنے موسم کتنی فصلیں کتنے پت جھڑ اور لوگوں کی خوشی میں خالی دل سے قہقہے۔
ابھی کچھ دن لگیں گے
دل پامال کو مکمل بحال ہونے میں
طاعون کی شب کو صبح کی اذان سے چاک کرنے میں کچھ دن لگیں گے۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں