امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین کے ہاتھوں مرنے والے کرنل سمیت 20 بھارتی فوجیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ہمارا اہم پارٹنر ہے، لداخ پر پیپلز لبریشن آرمی کے لڑائی والے اقدام ناقابل قبول ہیں۔ وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ امریکا پورے ایشیا میں اپنی فورسز کو تیار کر رہا ہے اور ان کی از سر نو تعیناتی عمل میں لا رہا ہے تا کہ چین کے ساتھ ممکنہ مقابلے کے لیے تیار ہوا جا سکے۔
بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سیکرٹری سٹیٹ کا کہنا ہے کہ امریکا نے اگلی جی 7 میٹنگ میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو مدعو کیا ہے، بھارت اور امریکا کے درمیان تعلقات نئی نہج پرچل رہے ہیں۔ ہندوستان کیساتھ مذاکرات میں مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے ساتھ ہونے والی لداخ پر لڑائی کے بعد کرنل سمیت بیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے بھی افسوسناک ہے، انڈو پیسفک میں ہندوستان ہمارا اہم اتحادی ہے۔
دوسری طرف چین کے ساتھ کشیدگی کے درمیان امریکا کے ساتھ بھارتی بحریہ کی فوجی مشقیں شروع ہو گئی ہیں، یہ مشق جزیرہ انڈمان اور نکوبار کے قریب کی گئی جہاں بھارتی بحریہ کا مشرقی بیڑہ پہلے سے ہی تعینات ہے۔
بھارتی بحریہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ مشق دراصل پیسیج ایکسرسائز کا ایک حصہ تھی جو وقتا فوقتا ایک بحریہ دوسرے ممالک کی بحریہ کے ساتھ کرتی رہتی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی جنگی جہازوں کا بیڑا یو ایس ایس نیمتز بحر ہند سے گزر رہا تھا اور اس دوران دونوں ممالک کی بحریہ نے مل کر یہ مشق کی۔ ماضی میں بھی بھارتی بحریہ جاپان اور فرانس کی بحریہ کے ساتھ ایسی ہی مشقیں کر چکی ہے۔
انڈین بحریہ کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آخر میں ان کی بحریہ آسٹریلوی، امریکی اور جاپانی بحریہ کے ساتھ خلیج بنگال میں بھی مشقیں کرے گی۔
امریکی بحریہ کے ساتویں بیڑے کے جاری کردہ بیان میں ریئر ایڈمرل جم کرک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس مشق سے فضائی سلامتی کے علاوہ تربیت کے معیار کو بہتر بنانے میں بھی بہت مدد ملی ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس مشق سے دونوں ممالک کی فوجوں کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا جس سے سمندری راستے سے آنے والے خطرات یا قزاقی اور دہشت گردی کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے گا۔
امریکی خبر رساں ادارے وال سٹریٹ جرنل کے مطابق وزیر دفاع مارک ایسپر کی جانب سے خطرناک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے بیجنگ کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے سخت گیر موقف کا تعین کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا پورے ایشیا میں اپنی فورسز کو تیار کر رہا ہے اور ان کی از سر نو تعیناتی عمل میں لا رہا ہے تا کہ چین کے ساتھ ممکنہ مقابلے کے لیے تیار ہوا جا سکے۔
ایسپر کے مطابق امریکا خطے میں بحری جہازوں کے بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے گا تا کہ چین کی توسیعی پالیسی اور تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے سے نمٹا جا سکے۔
تاہم دوسری طرف امریکی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور رواں سال کے اختتام تک چین کے دورے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین نے سمندری تیل اور گیس کی تقریبا 26 کھرب ڈالر مالیت کی ممکنہ آمدنی کی مد میں علاقائی حلیفوں اور شراکت داروں کو ڈرایا۔ امریکا ہر صورت میں تائیوان کو اسلحہ فروخت کرے گا۔
اس اقدام سے غالبا کشیدگی میں اضافہ ہو گا اس لیے کہ چین اس نوعیت کی فروخت کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی شمار کرتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ تائیوان کو تقریبا 10 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔ ان میں رواں سال مئی میں 18 کروڑ ڈالر کی ایک کھیپ بھی شامل ہے۔