پاکستانی معاشرے میں مذہبی قوانین اور اُن کے تحت سنائی جانے والی سزاؤں کے بارے میں بات کرنا ایک مشکل کام ہے۔
پنجاب اسمبلی کے منظور کیے گئے تحفظِ اسلام ایکٹ کے مطابق اللہ تعالیٰ، حضورِ اکرم ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام، الہامی کتب، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، خلفائے راشدین، ملائکہ اور اہلِ بیتِ اطہار کے خلاف گستاخانہ مواد کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔
نئے قانون کے تحت صوبائی محکمۂ اطلاعات ونشریات اخبارات کے دفاتر، چھاپہ خانوں اور کتب شائع کرنے والے اداروں پر چھاپے مار سکتا ہے۔ کتابیں اور مواد قبضے میں لے سکتا ہے۔ مالی اثاثوں اور اکاؤنٹس پر تحقیقات کو عمل میں لاسکتا ہے جبکہ پابندیوں پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کیلئے سزائیں بھی تجویز کی گئیں۔
بل میں کہا گیا ہے کہ جہاں بھی پیغمبر اسلام کا ذکر آئے گا وہاں ان کے نام کے ساتھ خاتم النبین (آخری نبی) اور صلی اللہ علیہ و سلم لکھنا لازمی ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق پیغمبرِ اسلام، اہل بیت، خلفائے راشدین اور صحابہ کے بارے میں توہین آمیز کلمات قابل گرفت ہوں گے۔
اسی طرح انبیا، فرشتوں، تمام الہٰامی کتب قرآن مجید، زبور، تورات، انجیل اور دینِ اسلام کے بارے میں متنازع اور توہین آمیز الفاظ پر بھی قانون حرکت میں آئے گا۔
پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق توہینِ مذہب سے متعلق کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ تعزیراتِ پاکستان کی مروجہ دفعات کے تحت بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ مختلف کتب میں مذاہب خصوصاً اسلام کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام ہو گی۔
بل کی منظوری کے بعد توہین آمیز یا گستاخانہ مواد کا مکمل طور پر تدارک ممکن ہو سکے گا۔ اس بل کی منظوری کے بعد ایسی کتب یا کوئی مواد جس میں پیغمبر اسلام، صحابہ، خلفائے راشدین، اہل بیت اور دیگر مقدس شخصیات کی توہین کا پہلو ہو اس کی اشاعت یا تقسیم پر پابندی ہو گی۔
بنیادی طور پر نوجوان نسل کو جدید اور ترقی پسند نوعیت کا لٹریچر پڑھنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ کیا یہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف افسانوی کتابیں پڑھیں۔مصنفہ اور ڈرامہ نگار آمنہ مفتی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی نیا لٹریچر تو ویسے بھی تخلیق نہیں ہو رہا۔ ’تو یہ کس کو ڈرانا چاہتے ہیں؟ یہ بنیادی طور پر ڈیجیٹل سپیس سے خوفزدہ ہیں اور اس کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔‘
تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ ایسے لگ رہا ہے کہ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازش ہے۔ اس بل کے محرک کالعدم سپاہ صحابہ کے پنجاب اسمبلی میں رکن معاویہ اعظم طارق ہیں۔ جنہوں نے الیاس چنیوٹی، حافظ عمار یاسر، حافظ طاہر اشرفی اور چودھری راسخ الہیٰ کی معاونت سے بل پیش کیا۔ صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر اور چودھری راسخ الہیٰ کا تعلق دیوبند کی تبلیغی جماعت سے ہے۔ یہ بل اسمبلی میں پیش کرنے سے صرف ایک دن پہلے اسمبلی کے ایجنڈے میں لایا گیا اور دوسرے دن اسے ایوان میں پیش کر دیا گیا۔ موجودہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی چودھری پرویز الہیٰ کے ذاتی کلرک رہے ہیں اور انہی کی نوازشات سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ عنایت اللہ لک کے توسط سے اس بل کو ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ بل پنجاب اسمبلی کے قواعد کی شق 154(2) کے تحت پیش کیا گیا اور اس پر کوئی بحث بھی نہیں ہوئی اور اسے منظور کر لیا گیا۔ ایک اور اہم نقطہ ہے کہ کورونا کے باعث 371 ارکان کے بجائے صرف 100 ارکان کو ایوان میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ 51 ارکان کی تائید سے کوئی بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں بہت مناسب ہوتا اگر یہ قانون پاس کرنے سے پہلے اِسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا جاتا۔
اُن کے بقول ملک میں جب ایک ادارہ موجود ہے تو اس کی رائے کو شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سابق حکمراں جماعت مذہبی کارڈ استعمال کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ جن ارکانِ اسمبلی نے صرف تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کا ٹائٹل دیکھ کر ہاتھ کھڑے کر دیے انھوں نے اس مسودے کو دھیان سے بھی پڑھا یا نہیں۔ البتہ اس مسودے کی ظاہری شکل کے پیچھے پوشیدہ ممکنہ مقاصد دیکھ کر مجھے 1984 کا ضیا الحق ریفرنڈم یاد آگیا جس کا مقصد ضیا االحق کو مزید پانچ برس کے لیے صدر بنوانا تھا۔
جب آئین پاکستان میں اسلام کی بنیادوں کا تحفظ موجود ہے اور بڑی شرح وبسط کے ساتھ موجود ہےتو پھر کون سی بنیادیں غیر محفوظ تھیں جو پنجاب اسمبلی کو تو نظر آئیں لیکن پورے ملک کی نمائندہ قومی اسمبلی انکا ادراک کرنے سے قاصر رہی۔میرا خیال ہے یہ صرف اور صرف مذہبی ووٹ کو قابو کرنے کی ایک سعی ہے۔پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس نوعیت کی قانون سازی کی وجہ سے ایک مذہبی ریاست بن چکا ہے۔پاکستان میں توہین مذہب قوانین اور اس کے استعمال پر عالمی سطح پر بھی ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔ پاکستان میں سابق گورنر پنجاب سمیت اہم شخصیات ان قوانین میں تبدیلی کے لیے سرگرم رہیں لیکن اُنہیں اس کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔
پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کے ایک حصے میں مقدس ہستیوں کے تقدس اور القابات کی وضاحت کی گئی۔ مگر دوسرے حصے میں مستقبل میں شائع یا درآمد کی جانے والی تمام کتابوں کو نظریاتی چھان پھٹک کی زنجیر سے باندھ کر پڑھائی لکھائی تحقیق کے دائرے کو اور محدود کرنے اور ریاستی تشریح سے مختلف آرا کے اظہار کو اطلاقی جرم قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ جو بھاری بھرکم قید اور جرمانے کی سزا ہے اس کا اطلاق اسلام کے علاوہ باقی دفعات پر کیا گیا، تاہم ہیومن رائٹس تنظیموں کے مطابق نئے قانون کی دفعہ 3 ایف اقلیتوں اور فرقوں کو نشانہ بنانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوں گی۔
Load/Hide Comments