آج سے تقریبا دو سال پہلے اتفاق ہوا پنجاب سیف سٹی تھاڑٹی کے دورے کا ایک عالیشان منصوبہ بہترین کارکردگی کی راہ پر گامزن سیف سٹی پراجیکٹ ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے مجرموں کی پکڑ فوری ممکن ہے ۔ بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائم اور دوسرے کرائمز کی روک تھام کا بہترین ادارہ ہے۔
وہاں ہماری ملاقات پنجاب میں سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر سے ہوی انہوں نے سیف سٹی اتھارٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹ کا دورہ بھی کروایا اور اس کا مقصد بھی بتایا مزید انہوں نے اپنی فلم کے بارے میں بھی بتایا کہ اس فلم کا مقصد کیا ہے ۔ ان کی فلم ’دال چاول‘ ایک ایسی فلم ہے جس کے ذریعے پولیس کا وہ مثبت چہرہ عوام کو دکھانا ہے جوکہ عوام نہیں جانتی ۔ان کے مطابق عمومی طور پر بھی پاکستان میں پولیس اور شہریوں سے اس کے برتاؤ کے حوالے سے زیادہ مثبت تاثر نہیں پایا جاتا۔پولیس کی ایسی کہانیاں لوگوں کو سنانا ضروری ہیں جن سے ان کے ادارے کا مثبت رخ سامنے آ سکے۔‘
خیر تحریر کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس ادارے کی حالت نازک ہو رہی ہے۔ 13 ارب روپے کی لاگت سے بنایا گیا پنجاب سیف سیٹیز اتھارٹی بیوروکریسی اور محکمہ پولیس کے درمیان جاری سرد جنگ کی وجہ سے بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ وزیراعلی عثمان بزدار کی منظوری کے باوجود اتھارٹی کو سالانہ مختص فنڈ جاری نہ کیا جا سکا۔
محکمہ خزانہ نے سیف سٹی اتھارٹی کے فنڈز میں سے رواں مالی سال میں اب تک صرف 200 ملین جاری کیے ہیں، فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے اتھارٹی کے پاس ماہ فروری کی تنخواہوں سمیت دیگر اخراجات کیلئے رقم موجود نہیں۔سب سے بڑا مسئلہ شہر میں نصب 8 ہزار کیمروں کی دیکھ بھال کا ہے، کیمروں کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کے پاس ہے، طے شدہ ٹھیکے کی رقم بڑھانے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر چینی کمپنی نے یکم دسمبر سے کیمروں کی دیکھ بھال کا کام چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے 8 ہزار میں سے 3 ہزار کیمرے خراب ہوچکے ہیں۔ خراب کیمروں میں سے بیشتر انتہائی اہمیت کی مقامات پر نصب ہیں، ان کی خرابی کی وجہ سے شہر میں سیکورٹی رسک بڑھتا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر کا کہنا ہے کہ کیمروں کی بحالی کے لیے کمپنی اور اعلی حکام سے رابطے میں ہیں، امید ہے مسئلہ جلد حل کر لیا جائے گا۔ فنڈز کی عدم فراہمی پر اکبر ناصر نے موقف اختیار کیا کہ محکمہ خزانہ نے جلد فنڈز جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے جس کے بعد اتھارٹی کو درپیش مالی مشکلات حل ہو جائیں گی۔
اتھارٹی کو فنڈز کی عدم فراہمی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ شہر میں نصب 8 ہزار کیمروں کی دیکھ بھال کا ہے، کیمروں کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کے پاس ہے، طے شدہ ٹھیکے کی رقم بڑھانے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر چینی کمپنی نے یکم دسمبر سے کیمروں کی دیکھ بھال کا کام چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے 8 ہزار میں سے 3 ہزار کیمرے خراب ہوچکے ہیں۔ خراب کیمروں میں سے بیشتر انتہائی اہمیت کی مقامات پر نصب ہیں، ان کی خرابی کی وجہ سے شہر میں سیکورٹی رسک بڑھتا جا رہا ہے۔
بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کسی بھی فرد واحد کا کام نہیں اس کے لئے پوری ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے اگر ہر شخص اپنا فرض دیانتداری سے ادا کرے توکوئی وجہ نہیں کہ اپنا مقصد نہ حاصل کر سکے۔جرائم پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ اپنے فرض کی ادائیگی میںکوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔محنت اور دیانت داری کا استعمال ہی انسان کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے
موبائل چھیننا‘ گن پوائنٹ پر ڈکیتی کی واردات کرنا‘ موٹرسائیکل چھیننا اور بارونق علاقوں میں خواتین سے پرس چھین کر موٹر سائیکل کے ذریعے فرار ہوجانا یہ معمول کی بات بن چُکی ہے۔ کوئی گلی محلہ‘ کوئی بازار یا مین روڈ محفوظ نہیں رہا حتیٰ کہ گھروں میں پانی پینے کے بہانے گھریلو خواتین کو ہراساں کر کے گھر کی قیمتی اشیا لے جانا اس طرح کے واقعات آئے روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اب تک ان وارداتوں کے دوران کئی بے قصور مزاحمت کے دوران موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ایسی صورتحال میں سیف سٹی اتھارٹی بہترین کام کر رہی تھی اور کر سکتی ہے ۔مالی بحران بڑے بڑے اداروں کو ختم کر دیتا ہے
جب کسی ادارے کے پاس بہترین عملہ اور بہترین سوچ رکھنے والے کارکن موجود ہو اور صرف فنڈز کی کمی کی وجہ سے وہ ادارہ زوال کے دہانے پر کھڑا ہوں تو حکومت وقت کو اس کو کاندھا ضرور دینا چاہیے ایسے ادارے جو عوام کی بقا اور نظم و ضبط میں ربط کے لیے کام کریں قوموں کا اثاثہ ہوتے ہیں اس ادارے کے تمام پولیس افسران تخلیقی سوچ اور پور اعظم لوگ ہیں فنڈز کی کمی اس ادارے کو زوال کی طرف لے جا سکتی ہے بلاشبہ ہمارے پور اعظم سپاہی اور تمام افسران بالا کسی بھی بڑی فوج سے کم نہیں ہمارے ادارے ہماری شان ہیں۔حکومت کو سب سے پہلے عوامی تحفظات کا تحفظ رکھنا ہے ۔
Load/Hide Comments