قوم کا سرمایہ مزدوری کی نذر، تحریر: ثنا آغا خان

چائلڈ لیبر ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جو ہماری اخلاقی اقدار کو کھو کھلا کر رہا ہے۔ ۲۰فیصد نوجوان آبادی کے باوجود بچوں سے مشقت لینا حیران کن نہیں تو اور کیا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ۳۳ فیصد بچے کم عمری میں جبری مشقت کا شکار ہیں بلاشبہ یہ مزدور بچے ہمارے معاشرے کا تلخ پہلو ہیں، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق دنیا بھر میں ۲۲۵ملین بچے کم عمری میں جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ان کا جسمانی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ چائلڈ لیبر کا شکار ان بچے اور بچیوں کی زیادہ تر عمریں ۵ سے ۱۵ برس کے درمیان ہیں۔ یہ بات کس قدر تکلیف دہ ہے کہ دنیا کا ہر دسواں بچہ یا بچی زندہ رہنے یا پھر اہلخانہ کی مدد کرنے کیلئے مزدوری کرتا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں تقریباً ۲۲ ملین یعنی ۲ کروڑ ۲۰ لاکھ کم سن بچے مزدوری کی نذ رہو چکے ہیں اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو ایسے متاثرہ بچوں کی سب سے بڑی تعداد افریقہ اور ایشیامیں پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں غربت، بے روزگاری و مہنگائی نے غریب بچوں کو اسکولوں سے اتنا دور کر دیا کہ ان کی تعلیم ایک خواب ہی بن کررہ گئی ہے یہ بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں تعلیم اور مناسب خوراک کی سہولتیں میسر نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر غربت کی وجہ سے ان بچوں کو مشقت و مزدوری کیلئے جبری طور پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی

فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا

بچوں سے جبری مشقت کروانا صرف غیر قانونی فعل ہی نہیں بلکہ بہت بڑا ظلم ہے اس لاقانونیت اور کھلم کھلا ظلم کی بڑی وجہ غربت، بھوک، افلاس اور آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے پاکستان میں سالانہ اڑھائی سے ۳ فیصد تک آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور جب آبادی میں اس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو  یہی وجہ غربت اور سہولیات کے فقدان مین اضافے کا باعث ہے۔

دیگروجوحات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن کو پڑھائی کا شوق نہیں ہوتا تو عموماً والدین کا کہنا ہوتا ہے کہ کوئی ہنر ہی سیکھ لیں یا کچھ کام کر لیں جس سے والدین کو بھی فائدہ اور مستقبل میں اس بچے کا اپنا بھی فائدہ ہو جبکہ کھیلنے کودنے اور پرھنےلکھنے کے دنوں میں پھول جیسے معصوم بچوں کے  ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے اوزار تھما دیئے جاتے ہیں بچوں سے مشقت خوشحالی و ترقی کے دعویدار معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ اور قوم کی اخلاقی اقدار کے زوال کی علامت ہوتا ہے جبکہ بچوں سے مزدوری و مشقت کو ہمارے ہاں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا جا بجا یہ نرم و نازک بچے بوٹ پالش کے کام سے لے کر ہوٹلوں، چائے خانوں، مارکیٹوں، کارخانوں، آٹوورکشاپس، خشت بھٹوں، کھیتوں، گھروں، سی این جی اور پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت بہت سی جگہوں پر مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔ بچوں سے مشقت کرانے سے متعلق آگاہی بڑھانے کیلئےبچوں کی مزدوری کیخلاف انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ۱۲ جون ۲۰۰۲سے عالمی دن منانے کا آغاز کیا اس دن کو منانے کا  مقصد بچوں کو محنت و مشقت سے بچاناہے۔ آئی ایل اوکا کہنا ہے کہ وہ کام جو بچوں سے بچپن اور ان کی صلاحیت چھین لے  یا بچوں کی جسمانی اور ذہنی ترقی کیلئے نقصان دہ ہو ایسا کام بچوں سے لینا عالمی قوانین کیخلاف ہے ۔ سال ۲۰۰۰ سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے تحت ترقی پذیر ممالک میں انسانی سماجی ترقی کے لیئے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں خصوصاً بچوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے ۲۰۰۱ تا ۲۰۱۰ میلینیم ڈیویلمنٹ گولز کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا اور یہ طے کیاگیا تھا کہ یہ ہدف ان ۱۰ برسوں میں حاصل کر لئے جائیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا تو اس کے بعد اب اسی پروگرام میں توسیع کی گئی ہے تا کہ ان اہداف کو ۲۰۳۰ تک حاصل کر لیا جائے جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں مشقت لینے کے رحجان میں قدرے اضافہ ہو ا ہے ہمارے ملک خصوصاً صوبہ پنجاب میں بیشتر قوانین تو موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے نہ تو عوام کو ان قوانین سے آگاہی حاصل ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے متعقلہ ادارے ان قوانین کو سختی سے نافذ کرتے ہیں سال ۲۰۱۶ میں پنجاب میں بچوں سے ملازمت کی روک تھام کیلئے The Punjab Restriction on employment of children Act 2016 کو پاس کیا گیا۔

 

عوام کی اکثریت شاید اس بات سے بے خبر ہے کہ مذکورہ قانون کے تحت ۱۵ سال سے کم عمر بچے کو ملازمت پر رکھنے کی صورت میں مالک کیخلاف دفعہ 3/11کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر ۶ ماہ قید اور ۵۰ ہزار روپے جرمانہ کی سز ا عائد کی جاسکتی ہے اسی طرح ۱۵ سال سے زیادہ اور ۱۸ سال سے کم عمر بچے کو اگرچہ ملازمت پر تورکھا جا سکتا ہے لیکن خطر ناک نوعیت کا کام نہیں لیا جا سکتا مذکورہ خلاف ورزی پر بھی مالک کو درج بالا بیان کردہ سزا کا مستحق ٹہرایا جا سکتاہے اسی طرح دوران ملازمت بچے سے غیر اخلاقی حرکت، جبر ی مشقت لینے کا جرم کرنے پر ۳ سال تک  سزا دی جاسکتی ہے اسی طرح بچوں سے خشت بھٹوں پر اور گھروں میں مشقت اور جبری مشقت کی روک تھا م کیلئے صوبہ پنجاب میں The Punjab prohibition of child labour at brick kiln Act 2016 اور  Punjab domestic workers Act 2019موجود ہیں۔ 

افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں انسداد چائلڈ لیبر قوانین تو موجود ہیں لیکن قانون کی گرفت کے حوالے سے عملاً صورتحال سب کے سامنے ہے بلا شبہ اس حوالہ سے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ہر سال ۱۲ جون کو انسداد چائلڈ لیبر ڈے منایا جا تا ہے اس دن بچوں کی مشقت کیخلاف سیمینارز، آگاہی واک اور بڑے بڑے بھاشن ہوتے ہیں جو کہ صرف عالمی اداروں کو دکھانے کیلئے ہوتا ہے اسی طریقہ سے دن منانے سے چائلڈ لیبر جیسی لعنت کبھی ختم یا کم نہ ہو سکے گی اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور سد باب کیا ہو گا اس حوالے سے چائلڈ لیبر کے ذمہ دار معاشرے کے تین فریق ہیں پہلے نمبر پر مزدور بچوں کے والدین ، دوسرے نمبر پر وہ لوگ جو بچوں سے کام لیتے ہیں اور نمبر تین پر حکومتی مشینری اور انتظامیہ ہے۔ اگر مزدور بچوں کے والدین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے بچوں سے محنت مشقت کیوں کرواتے ہیں تو اکثر والدین غربت اور مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں کہ مالی وسائل کی کمی کے سبب بچوں کو مشقت پر لگا دیتے ہیں جس سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر دوسری جانب بات کی جائے تو ان افراد کی جو اپنی صنعتوں، کارخانوں، بھٹوں، کھیتوں، ورکشاپس، ہوٹلوں، دکانوں اور گھروں میں بچوں سے کام لیتے ہیں یہ حقیقتاً ظالم طبقہ کہلاتا ہے یہ وہ افراد ہیں جو غریب کی مجبوری سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں یہ لوگ بچوں سے اضافی کام بھی لیتے ہیں اور اجرت بھی کم ادا کرتے ہیں، بچے سیکھنے کی غرض سے اکثر کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اس لئے ترجیحاً زیادہ تر بچوں کو کام پر رکھا جاتا ہے چائلڈ لیبر سے مستفید ہونے والوں میں ڈاکٹرز، وکلا، جج، بزنس مین اور ہمارے بڑے بڑے سیاستدان بھی شامل ہیں جن کے گھروں، کارخانوںاور کھیتوں میں ننھے مزدور اپنا خون  پسینہ بہا رہے ہیں اور اپنے غریب ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اگر اب ہم تیسرے اور آخری فریق حکومتی مشینری اور انتظامیہ کی بات کریں تو وہ چائلڈ لیبر میں اضافے کے اصل ذمہ دار ہیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا در حقیقت چائلڈ لیبر کے اصل ذمہ دار ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران ہیں جن کی ناقص پالیسیوں کے سبب چائلڈلیبر میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے حکمران انسداد چائلڈ لیبر ڈے مناتے ہیں، چائلڈ لیبر کیخلاف مزید قوانین سخت کرنے اور ذمہ داروں کو سخت سزاوں کی یقین دہانی کرواتے نظر آتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کی ذمہ دار یہ حکومتی مشینری خود ہی چائلڈ لیبر ڈے پر چائلڈ لیبر کیخلاف میڈیا پر اشتہارات دیتی ہے، سیمینارز اور آگاہی واک کا بھی انعقاد کروایا جاتا ہے لیکن یہ سب اقدامات حکومت کی چائلڈ لیبر کے خاتمہ سے متعلق سنجیدگی کو ظاہر نہیں کرتے دیگر ذمہ داران اور خصوصاً حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ چائلڈ لیبر کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے اشتہارات، سیمینارز، ریلیاں اور چند چھاپے تب تک کار گر ثابت نہیں ہو سکیں گے جب تک حکومت مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت کی شرح میں کمی کیلئے عملی اقدامات نہ کرے اگر غریب کے معاشی حالات بہتر ہوں گے تو پھر ہی چائلڈ لیبر جیسی لعنت کا خاتمہ ممکن ہو گا مزید یہ کہ کسی بھی ملک کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہاں کے بچے تعلیم حاصل کریں اور آگے بڑھیں ، ترقی کریں تو اس سے ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا۔

”وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغ”

اپنا تبصرہ بھیجیں