زبان زد عام جملہ ہے کہ انسان دنیا میں روتا ہوا آتا ہے ، اور روتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ جملہ انسانی حیات سے منسلک، عام مشاہدے کی اور بھی بہت سی باتیں، بہت سے ممالک میں کم وبیش ایک سے مفہوم سے رائج ہیں ۔لیکن ان سب میں ماں کا کردار اور ہستی خدا کے بعد اپنے اندر ایک خاص انداز ربوبیت اور رحمت کا پہلو لئیے ہوئے ہے ۔ خدا اور ماں میں ایک قدر مشترک ، عمل تخلیق بھی ہے، اور کوئی بھی زی روح اس مقام اور رتبے میں ماں کی برابری نہیں کر سکتا ۔
بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، رحم مادر ہی اسکی کل کائنات ہوتی ہے۔پھر پیدائش سے موت تک، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے تک کے تمام ادوار میں، کائنات کی بے پایاں وسعتوں اور رنگارنگ افکارو نظریات سے آشنا ہوتا ہے ، اور تمام عمر اپنے خیالات و نظریات کی ہم آہنگی کے حصول کے لئیے علم کے سفر پہ رواں دواں رہتا ہے۔ مطالعہ کے شوقین افراد کو پتہ چلتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا آف گاڈز ،جو کہ مائیکل جورڈن کی کتاب ہے ، اس میں پچیس سو معبودوں کا ذکر ہے ، اور دنیا میں تقریباً بیالیس سو مذاہب آج بھی پائے جاتے ہیں, یا للعجب ، اور ہر مذہب اور ہر خدا کے پیرو کار اپنے افکار اور عقائد کی درستی پر بھی یکساں بضد ہیں، تو حق کہاں سے ڈھونڈیں۔
ہوش سنبھالتے ہی مجھے والد گرامی بھاءجی رشید مرحوم کی جمع کردہ سینکڑوں کتابوں سے واسطہ پڑا، مخلص ، مشفق اور علم دوست ابو جی، سید ابوالاعلی مودودی کی فکر سے بے انتہا متاثر اور پیشے کے لحاظ سے ہر دل عزیز معلم تھے ، جنہوں نے اہلیان گوجرانوالہ کی تین نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔
اپنے طالب علموں کو رائج نصاب کے ساتھ باقاعدگی سے رسالہ دینیات اور تفہیم القرآن بھی پڑھاتے، جبکہ مسدس حالی کی مشق اس کے علاوہ تھی۔
مطالعہ کا شوق ورثہ میں ملا تو بیسویں صدی کے عظیم مفکرین سید مودودی ، محمد قطب اور سید قطب کی تمام کتابیں پڑھ ڈالیں ، اور ان کے متوازی مصر کے ڈاکٹر طحہ حسین اور عباس محمود عقاد جیسے مصنفین کی کتب بھی زیر مطالعہ رہیں، اور مسلکی اختلافات سے مدتوں پہلے خائف ہو کر بیگانہ ہو گیا ۔ متکلمین اور متصوفین کی ایک لمبی فہرست ہے، جن کے اپنے افکار میں ربط نہیں ، تو قاری کو ذھنی یکسوئی بھلا کیسے مل پاتی۔
عمر بڑھنے کے ساتھ علمی سفر بھی جاری رہا تو پاکستان کے غلام احمد پرویز ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، نیاز فتحپوری اور سید سبط حسن جیسے دانشوروں کی تصنیفات کی ورق گردانی بھی ہوتی رہی۔ چوبیس سال پہلے اپنے یورپ کے قیام کے دوران میں، عیسائیت اور علاقائی روائیتی ادب سے آشنائی ہوئی اور گزشتہ آٹھ سال سے کینیڈا کی مہاجرت اور مسافرت میں احقر کو جدید دور کے اسکالرز ، رچرڈ ڈاکنز کی کتب ، دی گاڈ ڈیلیوزن اور دی سیلفیش جین ،کے مطالعہ کا موقع بھی ملا ، سیم حارث کی ، دی اینڈ آف فیتھ، پر بھی کافی غور و خوض کیا ، ساتھ ساتھ ویل ڈیو رانٹ کی ، دی سٹوری آف فلاسفی، سے دانیان مغرب کو جاننے کا موقع ملا ، ویل ڈیو رانٹ کا ایک اور ضخیم کام جو کہ ، دی سٹوری آف سیویلائیزیش ہے، اس سے بھی وقتاً فوقتاً مطالعاتی حض اٹھاتا رہا ۔ لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ماحصل محض فکری قلابازیاں اور علمی سیاہ کاریاں ہی رہیں ، یا وہ جو حفیظ جالندھری مرحوم نے کہا تھا ،
یہ خوب کیا ہے، یہ زشت کیا ہے ،جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے
بڑا مزہ ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے
لیکن ان تمام ادوار میں ابو جی کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کو فراموش نہ کر سکا ۔ گوں مگوں کی کیفیت میں بھی اسلام سے وابسطہ رہا، رخ حیات گھوم پھر کے اسلام اور ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر ہی مرکوز ہو جاتا ۔
تیس مئی دو ہزار بیس کو فجر سے کچھ دیر پہلے امی جی سے بات کی تو امی جی، جو میرے لئیے گوشہء عافیت تھیں ، حال احوال کے تبادلے کے بعد مجھے صبر و شکر، اور کار خیر کی تلقین کرنے لگیں ، مجھے ایک گوناگوں اطمینان ملا ، نماز پڑھی اور سو گیا ۔پر اسی رات ، پاکستان میں میری امی جی حرکت قلب بند ہو جانے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ، اور وہ بھی اس شان سے کہ، کسی سے کوئی شکوہ نہ شکایت ، نہ کوئی طبعی تکلیف نہ عارضہ ، بغیر کسی کے ترغیب دئیے لبوں پہ کلمہ شہادت ، جسم پر سکون ،انکھیں بند ، چہرہ خود بخود ہی قبلہ رخ ، سانسیں ساکت اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے رب کی طرف روانگی ، وہی جو رب العالمین ہے ، اللہ تعالیٰ، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
موت سے قبل یقین آ جانا بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے ، لفظ یقین، قرآن مجید میں اٹھائیس مقامات پر مختلف معنوں میں آیا ہے ، اگرچہ مختصر تحریر میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمونا مشکل ہے، مگر، جب تک انسانی عقل اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اس پیکر خاکی میں موجزن اور طلاطم آرا ہے ، تب تک تنازع علم و عشق بھی جاری رہنا ہے ۔ بیشک ، شک کی تمام حالتیں ، تماری ، تردد، ہول اور فرار یا تو عبادات سے ختم ہوتی ہیں،اور یا پھر موت سے ، میری امی جی کی رحلت، مجھ گم گشتہ راہ کو یہ یقین عطا کر گئی، کہ وہ ہی اللّٰہ ہے، جو حیات دیتا ہے اور پھر موت ، وہی جو قرآن کا مقدمہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منادی عالم، کہ یہ دنیا ایک عرصہ امتحان ہے، اور تمہاری ، تمہارے خالق سے ملاقات طے ہے ۔
غزوہ خندق کے موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ سے ایک مراسلہ بھیجا جاتا ہے کہ ہم آپ کو ختم کرنے کے لئیے ایک بڑی جمیعت کے ساتھ آ رہے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب بھجوایا کہ تم مبتلائے فریب ہو ، فنا و بقا اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ دن دور نہیں جب ، لات ، عزی، اساف ، نائیلہ اور ہبل کا نام تک دنیا سے مٹ جائے گا۔ آج دنیا میں تقریباً دو ارب مسلمان اور کروڑوں مساجد کس کے نام کی صدائیں بلند کر رہی ہیں ، کیا ایسا نہیں ہے کہ مذکورہ بالا نام صرف تاریخ کی کتابوں میں دفن ہو کر رہ گئے ہیں ۔بس یہ سوچ تھی جس کے وارد ہوتے ہی دل و دماغ کی ساری ثقافتیں دھل گئیں، بات شروع ہوئی تھی ، انسان کے دنیا میں روتے ہوئے آنے سے، میری امی جی بھی دنیا میں روتے ہوئے ہی آئیں ، پر اپنے رب سے ملاقات کے لئیے لبوں پہ کلمہ شہادت کی مسکان لئیے روانہ ہو گئیں ، خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ، صدمہ تو دائمی ہے، لیکن ہم عاجز انسان ، جانے والوں کے لئیے دعا کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اللّٰہ کریم سے دعا ہے کہ میری امی جی کی قبر کو ٹھنڈی اور منور کر دیں، اور اپنی آغوش رحمت میں لے کہ ان کو جنت الفردوس میں میرے ابو جی کی ہمراہی میں اعلی مقام عطا کر دیں ، آمین۔
__________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق صحافی اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔