سنا تھا کہ تبدیلی کے ثمرات نچلی سطح تک منتقل ہونگے،مگر جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے،پنجاب پولیس میں تو تبدیلی کے تمام ثمرات صرف اوپروالی سطح تک منتقل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں،تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد اتنی جلدی تو ایس ایچ او تبدیل نہ ہوا جتنی جلدی آئی جی،سی سی پی اوز،آر پی اوز،ڈی آئی جیز،اور ڈی پی اوز تبدیل ہوئے،اسلیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بار،بار تبدیلی کے یہ ثمرات پولیس ورکنگ میں بہتری کے بجائے مشکلات پیدا کررہے ہیں،وزیر اعظم نے وفاق میں اپنے وزیروں،مشیروں کی جبکہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدارنے اپنے وزیروں مشیروں کی ٹیم بنائی،ٹیم بنانے والاہی جوابدہ ہوتا ہے،اگرایک سکول کے اساتذہ ایک ہی سکول میں پڑھاتے رہیں گے تو یقینا اس سکول کا رزلٹ بھی اچھا ہی ہوگا ،اگر اساتذہ کو کبھی کسی سکول ،کبھی کسی سکول تعینات کیا جائے گا اس طرح وہاں کے طالب علموں کے اچھے رزلٹ اور اساتذہ سے اچھے رزلٹ کی امید نہیں لگائی جاسکتی ،پنجاب پولیس میں ان دو سالوں میں ہونے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں تبادلوں کی وجہ سے تھانہ کلچر میں تبدیلی کے ثمرات ہر سطح تک نہیں پہنچ پارہے،جب کوئی افسراپنی جائے تعیناتی کے بارے میں ورکنگ کو سمجھ جاتا ہے تو اسکو تبدیل کردیا جاتا ہے،اگراسکو تبدیل نہ کیا جائے تو نئے سرے سے شروع ہونے والے تجربات اور پالیسی سب کے ورکنگ سٹائل کو بدل دیتی ہے،شعیب دستگیر سے پہلے بھی تحریک انصاف نے آئی جی کے تبادلوں کا سلسلہ جاری رکھا،شعیب دستگیر کو بطور آئی جی کام کرتے ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں اور فروری میں انکی ریٹائرمنٹ بھی ہے،مگر ہرپولیس افسر صرف اس خوف کی وجہ سے کام نہیں کرپارہا کیونکہ اسکو علم ہوچکا ہے کہ بغیر کسی وجہ کے اسکو تبدیل کردیاجائے گا اور اسی وجہ سے وہ پوری توجہ اور محنت سے کام کرنے کی کوشش میں تو لگے رہتے ہیں مگرانکو یہ پتہ چل چکا ہے کہ اس حکومت کے پاس کارکردگی کے معیار کو جانچنے کے لیے کوئی آلہ نہیں ہے،جب دل کیا ادھر سے ادھر کردیا،آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے اپنی ٹیم بنائی اور پنجاب میں کام کا آغاز کیا،ذوالفقار حمید کو دوبارہ سی سی پی او تعینات کیا گیا،وہ اپنی تعیناتی سے قبل بنائی گئی ٹیم کے ساتھ کام کرتے رہے،لاہور کے ایس پیز وہی رہے،رائے بابر سعید کو تبدیل کیا گیا،اسکے بعد اشفاق خان کی دوبارہ بطور ڈی آئی جی آپریشنز تعیناتی کی گئ،اشفاق خان تو پہلے بھی ٹھیک کام کررہے تھے پھر انکو تبدیل کیوں کیا گیا تھا،یا پھرافسر کازور دیکھا جارہا تھا،رائے بابر نے اشفاق خان کی جگہ لی جبکہ اشفاق خان نے دوبارہ اپنی جگہ حاصل کرلی،پنجاب میں اس وقت آر پی او ملتان وسیم سیال ہی واحد افسر تعینات ہوئے ہیں جنکو تبادلوں کی ہوا چھو تک نہیں سکی،سی پی اوراولپنڈی احسن یونس،سی پی او فیصل آباد کیپٹن ریٹائرڈ سہیل چوہدری،سی پی او ملتان حسن رضا خان،سی پی او گوجرانوالہ رائے بابر سعید آئی جی پنجاب کی ٹیم کا حصہ ہیں،ذوالفقار حمید بھی آئی جی پنجاب کی ٹٰیم کا ہی حصہ تھے،مگرانکو مکمل طور پراننگز کھیلنے نہ دی گئی،وزیرا عظم جب بھی لاہور کا دورہ کرتے ہیں تو اسکے بعد بیوروکریسی اور پولیس میں تبادلوں کا طوفان چل پڑتا ہے،چند،چند ماہ کے لیے ڈی پی اوز اور آر پی اوز کی تعیناتی سے پولیس سسٹم کو بھی کافی فرق پڑتا ہے کیونکہ ہر افسر اپنی نئی پالیسی لیکر آتاہے،سنا تو یہیں کہ پولیس آرڈر 2002 کی رو سے اگر کسی افسر کے خلاف کوئی شکایت نہیں تو اس افسر کو3سال تک ایک ہی جگہ تعینات رکھا جاسکتا ہے،وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو بھی اب سمجھ لینا چاہیے کہ بار،بارتبادلے سسٹم میں بہتری نہیں لاسکتے بلکہ سسٹم میں مسائل ہی پیدا کرتے ہیں،نئے تعینات ہونے والے سی سی پی اومحمد عمر شیخ کے بارے میں سنا ہے کہ انکا کام کرنے کا اپنا ہی سٹائل ہے اور سخت گیر بھی مشہور ہیں مگر سوچتے تو وہ بھی رہے ہونگے کہ پتہ نہیں کتنا وقت اس سیٹ پر رہنا ہے،کیونکہ جب ایک افسرسسٹم کو سمجھ جاتا ہے اور اسکو اپنے مطابق چلانے لگتا ہے توتبادلہ اسکا انتظار کررہا ہوتا ہے،جب آپ کسی نئے محلے میں شفٹ ہونگے تو وہاں کے لوگوں سے شناسائی کے لیے بھی آپ کو کچھ وقت چاہیے ہوتا ہے،وہاں کے ماحول کو سمجھنے اور ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے،اب اگر نئے سی سی پی اومحمد عمر شیخ کو کام کے لیے فری ہینڈ دیا گیا ہے تو وہ یقینا اپنی ٹیم کے ساتھ ہی میچ کھیلنا پسند کریں گے،کیونکہ کپتان کوعلم ہوتا ہے کہ کونسا کھلاڑی کس جگہ بہتر پرفارم کرسکتا ہے،یا پھر اگر انکی ان سے قبل لاہور میں تعینات افسران سے ذہنی ہم آہنگی ہوگئی تو بھی ڈٹ کر کام کیا جاسکتا ہے،نئے تعینات ہونے والے سی سی پی او عمر شیخ کو بھی کھل کر کام کرنے کا موقع دیا گیا تو یقینا وہ بہتر پرفارم کرسکیں گے اور اگر وہ اسی سوچ میں رہے کہ آج یہاں کل وہاں تو پھر پرفارمنس بہتر نہیں رہتی،لاہور شہر میں دو ہی بڑے مسلے ہیں کرائم اور لا اینڈ آرڈر،لا اینڈآرڈرکا مسلہ دوسرے شہروں میں بہت کم ہوتاہے اس لیے یہاں تعینات ہونے والے افسران کو دونوں چیلنجز سے نمٹنا پڑتا ہے،یہ بھی صرف ٹیم ورک کا ہی نتیجہ تھا کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں محرم الحرام کے بڑے جلوس خیریت سے اختتام پذیر ہوئے،اگر ایک علاقے کے ایس ایچ او کو بھی بار،بار بدل دیا جائے تو علاقے میں امن قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،پنجاب حکومت کو چاہیے کہ اچھا رزلٹ لینے کے لیے اوپر سے نیچے تک بغیر کسی وجہ کے تبادلوں سے گریز کرے،افسران کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے،اگر انکو یہ پتہ ہوگاکہ انکو بغیر کسی وجہ کے تبدیل نہیں کیا جائے گا تو یقینا وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی پرفارمنس دے سکتے ہیں،دو سالوں سے چلنے والے تبادلوں کے ریلے کو روک لیا جائے تو محکمے اور عوام کا نقصان نہیں ہوگا،ایک شہری ایک افسر کے پاس پیش ہوکر اسکو اپنی روداد سناتا ہے تو جب ضرورت محسوس ہونے پر اسکو یہ کہا جا ئے کہ کل دوبارہ آجاو،وہ دوبارہ جائے بھی مگر وہاں پر پرانا افسر نہ ہو تو اسکونئے سرے سے نئے افسر کو اپنی روداد سنانی پڑتی ہے،اور اسی وجہ سے لوگوں کے مسائل فوری حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں،کچھ افسران فیلڈ پوسٹنگ کےجبکہ کچھ افسران دفتری کاموں کے ماہر ہوتے ہیں اسلیے افسران کی بار،بار تعیناتی کے بجائے انکی ترجیحات کو بھی ترجیح دی جائے،کیونکہ اگر ریلے مسلسل چلتے رہیں تو وہ سب کچھ بہا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں،بڑی مشکل سے امید کی جاسکتی ہے کہ محکمے اور عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں گے مگر یہ جب ہی ممکن ہوسکے گا جب ٹرین کوچلتے رہنے دیا جائے گا،بار،بار اسکی زنجیر کھینچنے سے وقت اوروسائل دونوں کا ضیاع ہوگا،
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments