جہاز میں بیٹھتے ہی انکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کی۔ نیند کیا آنی تھی لمحوں میں ساری زندگی آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ہوائی جہاز نے اڑان کیا بھری کہ خیالات کی بازیگری شروع ہو گئی ۔ قطار اندر قطار خیالات کے لامتناہی سلسلے ،اور ساتھ ہی دیارِ دل میں یادوں کے چراغ جل اٹھے ، ایسے جیسے دل میں “بناتُ النعش ” کی برات اتر آئی ہو ۔ منزل ہے گوجرانوالہ ماڈل ٹاؤن قبرستان۔ کینیڈا براستہ ترکی تا پاکستان۔ لاہور ائیرپورٹ اترتے ہی چھوٹے بھائی عرفان رشید کے ساتھ قبرستان روانہ ہو جانا ہے ۔ جہاں میرے ماں باپ منوں مٹی تلے ، پہلو بہ پہلو آسودہِ خاک ہیں ۔
خیالات اور یادوں کا مرکز و محور بھی کوئی اور نہیں ، میرے والدِ گرامی بھاءجی رشید ہیں۔ ان پہ کچھ لکھنا ذاتی طور پر میں سوئے ادب سمجھتا ہوں ۔کیونکہ استاد محترم پروفیسر محمد اقبال جاوید صاحب ان پہ ایک تحریر پہلے ہی سپردِ قلم کر چکے ہیں ۔ لیکن انسانی حیات کسی ایک کردار میں مقیّد نہیں ہوتی ۔ دوست احباب کے علاوہ بھی آپ ، بیٹا ، باپ ، بھائی اور شوہر کا کردار نبھا رہے ہوتے ہیں۔ انسانی حیات ھمہ جہت جو ٹھہری۔ سوچا میں نے ان کو بطور باپ جو دیکھا ،وہ کچھ لکھ ہی دوں ،شاید کسی پہ کوئی بات اثر کر جائے ۔ احترام ملحوظِ خاطر رہے ، سلسلٔہِ تحریریِ کلام محترم پروفیسر محمد اقبال جاوید صاحب کی تحریر سے ہی کرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں “اساتذہ ہوں یا تلامذہ ، اپنے ہوں یا بیگانے ، ادباء ہوں یا شعراء ،بھاءجی رشید سبھی کے لئیے بھاءجی رشید تھے ۔اس طرز تخاطب میں احترام کی فضیلت اور محبت کی عظمت جھلکتی تھی ، حق یہ ہے کہ ان کا دل ہر ایک کے لئیے محبت سے لبریز رہتا تھا ”
ان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آئے تو جو تصویر بنتی ہے وہ کچھ یوں ہے ، پرانے مکان کی خستہ حال بیٹھک ہے ، جسے پروفیسر صاحب ” حُجرہ” اور خواجہ عبدالمنان راز کاشمیری “ڈیرہ” لکھتے ہیں ۔والد بزرگوار وہاں نشست لگائے بیٹھے ہیں، اساتذہ ، تلامذہ عقیدت مندوں اور ملاقاتیوں کا ھمہ وقت اک اکٹھ ہے ، جو صبح سے رات ڈھلے تک جاری رہتا ہے ۔ آئے روز نت نئے لوگوں کی میل ملاقاتیں ، خاطر داری اور مہمان نوازی کے سلسلے ۔ ساتھ ساتھ ان کی انتھک تعلیم و تعلم کی مشقت ۔ تھکا دینے والے شب وروز لیکن پھر بھی ہر وقت ہشاش بشاش اور عالی حوصلہ ۔
تقسیم ہند کے وقت جالندھر سے ، جہاں دسمبر 1938 کو پیدا ہوئے ، نقل مکانی اور ہجرت کر کے دادا جی عبدالمجید کے ساتھ گوجرانوالہ آ بسے ۔ ہجرت کے دردناک واقعات بھول نہ پائے تھے ۔ میں نے دادا جی کو نہیں دیکھا ،بتایا کرتے تھے کہ حد سے زیادہ نیک انسان تھے ، مصلے سے اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے ۔ فکر معاش سے بھی آزاد تھے ۔ لازمی نتیجہ غربت اور فاقہ مستی تھی ۔ بتایا کرتے کہ ہمارا گھر کلبئہِ افلاس تھا ۔ محرومیوں اور حالات کے جبر کے باوجود جیسے تیسے تعلیم مکمل کی اور بطور معلم درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ ساری زندگی گورنمنٹ عطا محمد اسلامیہ ہائی سکول نمبر 1 میں پڑھایا اور وہیں سے ریٹائرڈ ہو گئے ۔ لیکن یہ نصف صدی کا قصہ ہے ۔ نوجوانی میں سیّد ابوالاعلی مودودی کی عصرانہ مجالس میں شرکت کرتے رہے۔ ان کے ساتھ آئے دن کی نشست و برخاست اور تبادلہ خیالات کے بعد ان کا بہت زیادہ اثر لے لیا ۔ خود بھی تمام لٹریچر پڑھ ڈالا اور ہزاروں لوگوں کو مودودی کی فکر اور انکی کتب کی چاٹ بھی لگا گئے ۔
زندگی کے آخری سال پروفیسر محمد اقبال جاوید صاحب سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں ، اکثر میں ان کو ساتھ لے جاتا ۔ پروفیسر صاحب ” ارمغان راتھر بقلم خود ” کی تحقیق اور ترتیب میں مصروف تھے، اور والد گرامی ان کو جناب محمد رمضان راتھر ، جو کہ گکھڑ کی ایک بلند پایہ گوشہ نشین علمی شخصیت تھے ، انکے ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط اور نظمیں دینے جایا کرتے تھے ۔میں نے بارہا ان کو کتابوں کے انبار سے جناب محمد رمضان راتھر کے لکھے ہوئے کاغذ اور کارڈ نما خطوط ڈھونڈتے دیکھا ۔پروفیسر محمد اقبال جاوید گئے دنوں کی عظمت اور درویش منش انسان ہیں ۔ ابو جی کے جیتے جی کتاب مکمل نہ ہو سکی ۔ پروفیسر صاحب نے بڑی عرق ریزی کے بعد جناب راتھر کا بکھرا کام ایک جگہ یکجا کیا اور “ارمغان راتھر بقلم خود” کے نام سے کتاب شائع کروا دی ،اور والد گرامی کی یاد میں کتاب کا انتساب نہ صرف ان کے نام کر دیا بلکہ ” رشیدیات” کے عنوان سے پورا ایک باب کتاب میں رقم کر دیا ۔
انتساب کچھ یوں ہے ،
بھاءجی رشید کے نام
“مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ”
شہر گوجرانوالے کے مردِ وحید
مجلس احباب میں فردِ فرید
آپ ان کو جانتے ہوں گے ضرور
لوگ ان کو کہتے ہیں بھاءجی رشید
جناب راتھر مجھے کچھ کچھ یاد ہیں۔ تصور کی آنکھ سے ابو جی کے پاس ہر وقت بیٹھے ہوئے انہیں دیکھتا ہوں ۔ انیس سو پچھتر میں گھر پہ دئیے گئے عصرانے میں ان کے کچھ اشعار ،
ہے خلوص انسان کا وصفِ کمال
جس سے ہو سکتی ہے ہر دل کی خرید
ہے یہی سرمایہ بس بھاءجی کے پاس
جس سے ہر انسان ہے ان کا مرید
گر یزید اس بزم میں ہو ہمنشیں
ہے یقیںن بن جائے وہ بھی بایزید
میں بھی ان کے سحر کا ہوں معترف
موجِ الفت در دلِ من ھم دوید
راز ہو راتھر ہو یا اقبال ہو
ہیں سبھی اس پیر خانے کے مرید
(اقتباس از ارمغان راتھر بقلم خود )
میں نے دیکھا وہ انجانے اور اجنبی لوگوں کی خدمت میں بھی یوں جت جاتے جیسے وہ اپنے ہوں ۔دوستوں کے لئیے تو خیرو سراپا محبت و وفا تھے ہی،جانے اور انجانے لوگوں کا دردوالم دل سے محسوس کرتے ، اور ان سے جو کچھ بن پڑتا کرنے کی کوشش کرتے ۔اپنے بہن بھائیوں کو پاؤں پہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ خود گلی کے کھمبوں کی روشنی میں پڑھے تھے لیکن اقبال جاوید صاحب کی مشاورت اور معاونت ، اور اپنے کچھ اور دوستوں ، لاہور سے کرنل شجاعت علی صاحب، مشی گن سے ڈاکٹر اشفاق کے تعاون سے بیسیوں گھروں کے چراغ جلا گئے ، جو میرے علم میں ہیں ۔فوت ہو گئے اس لئیے ان کے محاسن بتانے میں کوئی حرج نہیں ۔اپنے عزیز دوست خواجہ عبدالمنان راز کاشمیری کا نعتیہ کلام ” لوح بھی تو قلم بھی تو ” ان کی وفات کے بعد جناب حفیظ تائب اور جناب اقبال جاوید صاحب کی معاونت سے شائع کروایا ۔ یہ وہی راز کاشمیری ہیں جو اپنی ذاتی ڈائری میں لکھتے ہیں
” بھاءجی رشید صاحب ایک مرنجاں مرنج آدمی ہیں۔ سیدھا دو ٹوک ، صاف دل ، مخلص ،ایثار پیشہ ، یاروں کا یار ، تکلف سے بے نیاز ، اپنی زندگی میں ان خصوصیات کا حامل اور کوئی شخص نہیں آیا ” یاروں کے یار سے یاد آیا اپنے ایک دوست کی وفات پہ اپنی پانچ مرلہ قطعہ اراضی نا صرف اس کے بچوں کے نام کروا دی بلکہ اپنے حلقہِ اثر میں صاحب ثروت افراد سے کہہ کر ان کو مکان کی تعمیر کروا کے کھلے آسمان کے نیچے چھت بھی مہیا کروا دی ۔ طبیعت میں غنٰی تھا ۔ میں نے دیکھا کہ پولیس اسٹیشن، تھانہ کلچر، کورٹ کچہری سے گریزاں تھے ۔ گھر میں اک شادی کے دعوت نامے کچھ وکلاء حضرات کو دینے تھے۔ میں ان کو ساتھ لے گیا تو کچہری سے باہر ہی کھڑے ہو گئے ۔ کہنے لگے، یار تم خود کارڈ بانٹ آؤ، مجھے کراہت آتی ہے ۔ ساری زندگی بازار سے کوئی کپڑا ،جوتا خریدتے نہیں دیکھا ، لا دیا تو پہن لیا ، نہیں تو نہ سہی۔
سرکاری دفاتر نہیں جاتے تھے ۔ اپنے ایک کام سے لاہور سیکریٹریٹ لے گیا تو بادل ناخواستہ چل پڑے۔ سلیم سکندر چہل اے آئی جی پنجاب تھے ۔ حد سے زیادہ احترام کیا ، موقع پر احکامات جاری کئیے اور باہر تک چھوڑنے آئے۔ غالباََ ان کے ایک بھائی جسٹس نسیم سکندر چہل ہائیکورٹ کے جسٹس رہ چکے ہیں ۔ خواجہ عمر مہدی سی ایس ایس کے بعد گھر پر ملنے آئے ، تو والد بزرگوار کے گھٹنوں کو چھوا اور باادب کھڑے ہو گئے، چائے لے کر میں آیا، تو والد گرامی ان سے از راہ تفنن کہہ رہے تھے ،کہ کہیں پاؤں نہ ڈگمگا جائیں ۔ مہدی صاحب جو بعد ازاں کسی محکمے کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے ، کہنے لگے بھاءجی ابھی تک تو میرے پایہِ استقلال میں لغزش نہیں آئی ، آپ دعا کریں ۔ اور وہ کسب حلال کے بعد با عزت ریٹائرڈ ہو گئے ۔ میں نے دیکھا کہ بےشمار لوگ جب والد محترم سے ملنے آتے ، میں بیٹھک کا دروازہ کھولتا تو وہ جوتے باہر ہی اتار دیتے ۔ چونکہ ابو اس قبیل کے آدمی نہ تھے، لہٰذا وہ انہیں ایسا کرنے سے ہمیشہ منع کرتے، لیکن یہ ان کا اپنا حد ادب تھا ۔
لمبی چوڑی تحریریں پڑھتے، اور گرجدار اور پر سوز واعظ سنتے عمر بیت گئی ۔لیکن ” قُولُ قَولًا سدیدًا ” کی عملی تفسیر صرف اپنے والد میں دیکھی ۔ حق بات کہنے میں جھجھک کے قائل نہیں تھے، خواہ مخاطب متعلقہ ممبران اسمبلی ہوں یا ملکِ عزیز کے جاگیردارانہ معاشرے کے پروان چڑھے ، مختلف طبقہ اثر کے طاقتور افراد ۔ کیا کیا لکھوں ، اپنی طبعی عمر سے بڑھ کے کام کر گئے۔ اولولعزم تھے شاید ۔ برگد کے درخت کے نیچے اور پودے نہیں کھِلا کرتے ۔وہ جس کارواں کے راہرو تھے ، وہ منزل کو پا گیا ۔ احقر اس کارواں کی دھول میں اٹا پٹا منزل کی جستجو میں غبارِ زندگی کے چھٹ جانے کا انتظار کر رہا ہے ۔ شاید باپ کی کوئی دعا ہی لگ جائے ۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے “باپ کی دعا بیٹے کے حق میں ایسے ہے، جیسے نبی کی دعا امت کے حق میں “۔
آج آٹھ ستمبر کی رات ہے ، اور والد گرامی دو ستمبر دو ہزار بارہ کو پر مشقت اور بھرپور زندگی گزار کے منوں مٹی تلے جا سوئے۔ جنازے پہ لوگ جوق در جوق امڈ آئے، اور ان کے شخصی کردار کی گواہی دے کر اپنی محبت کا اظہار کر گئے۔
غیرت ، خلوص ، حسنِ عمل ، عفتِ نگاہ
کیا کیا جہاں سے اٹھتا گیا رفتگاں کے ساتھ
اپنے والدِ گرامی کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کو کندھا دیا ۔ان کا حلقہِ احباب ایسا تھا کہ ہر ہفتے کئی جنازوں میں شرکت کرتے۔
بدقسمتی دیکھئیے خود ان کے جنازے کو کندھا نہ دے سکا ، ابھی وینکوور کینیڈا آیا ہی تھا ۔ اک خلش ہے جو اب قبر میں ساتھ ہی جائے گی ۔ اللّٰہ تعالیٰ میرے والدین کی قبروں کو تا حشر جگمگاتا رکھے آمین۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔
Load/Hide Comments