چند روز قبل تعینات ہونے والے لاہور پولیس کے سربراہ محمد عمر شیخ کی بطور سی سی پی او تعیناتی متنازعہ بن رہی،ان پر الزامات بھی لگائے گئے،اور آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے جانے کے بعد عمر شیخ پولیس سروس آف پاکستان اور خصوصاً پنجاب پولیس کے لیے کبھی نہ بھولنے والی تعریف بن چکے ہیں،انہوں نے تعیناتی کے بعد آئی جی شعیب دستگیر کے بارے میں جو باتیں کیں اس کے بارے میں وہ کئی فورم پر بتا چکے ہیں کہ جذبات میں انکے منہ سے ایسے الفاظ نکل گئے،جو شعیب دستگیر کو برے لگے،عمر شیخ نے اپنے جانب سے کی جانے والی باتوں پر کھلم کھلا معذرت بھی کرلی،انکا کہنا ہے کہ جذبات میں وہ ایسی بات کرگئے،آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے دفتر اور گھر میں معافی کے لیے فون بھی کیے اور انکو میسج بھی کیے مگر شعیب دستگیر کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا،اسکے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ پنجاب پولیس کے لیے ایک تاریخ بن چکی ہے،جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا،عمر شیخ شعیب دستگیر سے اظہار یک جہتی کے لیے بلائے گئے اجلاس میں بھی گئے،وہاں موجود پنجاب چیپٹر کے صدر راؤ سردار علی خان کی جانب سے انکو جانے کا بھی کہا گیا مگر انہوں نے کہا کہ وہ آئی جی پنجاب سے اظہار یک جہتی کے لیے آئے ہیں اور اپنی بات سنائے بغیر نہیں جائیں گے،پھر انہوں نے اپنی بات سنائی اور وہاں سے چلے گئے،عمر شیخ کے اس اجلاس میں آنا وہاں موجود تمام سنیئر افسران کو ناگوار تو گزرا ہوگا مگر عمر شیخ نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا جو اس اجلاس میں شریک ہوئے انکا کہنا ہے کہ وہ اس اجلاس میں بطور ممبر صرف اسلیے شریک ہوئے کیونکہ یہ اجلاس حکومت کے رویے کے خلاف تھا کہ آئی جی پنجاب کو تبدیل کیا جارہا ہے،انکا کہنا ہے کہ یہ اجلاس عمر شیخ کے خلاف نہیں تھا،اب ہم بات کرتے ہیں عمر شیخ فارمولے کی،،،عمر شیخ کی جانب سے فارمولے کو نام دیا گیاہے،،،پولیسنگ آف پولیس،،عمر شیخ کا کہنا ہے کہ انکو لاہور پولیس کو ٹھیک کرنے اور زندہ دلان لاہور کو مال اور جان کو تحفظ فراہم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے،جسے وہ صرف اپنے فارمولے کے مطابق چلانا چاہتے ہیں،عمر شیخ کہتے ہیں کہ جب تک محکمہ پولیس میں پاک فوج کی طرح کورٹ مارشل کی طرز پر کورٹ مارشل یا اکاونٹیبلیٹی کا نظام شروع نہیں کیا جائے گا تب تک سسٹم ٹھیک نہیں ہوسکتا،جس طرح فوج میں کورٹ مارشل کے بعد افسر کو نکال دیا جاتا ہے اور انکو پتہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ اس ادارے کا حصہ نہیں بن سکتا،اسی طرح کا ایک نظام محکمہ پولیس بھی وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر پولیس والا کوئی سنگین غلطی کرتا ہے تو وہ یہ سوچ لے کہ خالی معطلی یا برخاستگی نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ کے لیے بحالی نہیں ہوگی،اور اگر یہ سسٹم رائج کردیا جاتا ہے تو پھر ہر افسر اور اہلکار کسی بھی غلطی سے پہلے سو بار کیا ایک ہزار بار سوچے گا،عمر شیخ کا ویژن تو بہترین ہے اور اگر اس پر عملدرآمد شروع کردیا جائے تو سسٹم میں کافی بہتری لائی جاسکتی ہے،لیکن اگر یہ فارمولا کامیاب ہوجائے تو اسکو صرف لاہور نہیں،پنجاب نہیں پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے،تاکہ افسر اور اہلکار بھی محتاط رہیں اور اسکے فوری ثمرات بھی عوام تک پہنچ سکیں،سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت انکے آئی جی پنجاب کے بارے میں انکے رویے پر انکوائری کرانا چاہتی ہے تو ضرور کرایے وہ انکوائری کا سامنا کریں گے مگر ایک انکوائری وہ بھی حکومت سے چاہتے ہیں کہ انکو ایڈیشنل آئی جی کی عہدے پر ترقی کیوں نہیں دی گئی،پروموشن بورڈ میں موجود چاروں آئی جی صاحبان اور دیگر بیوروکریٹس اور افسران سے بھی پوچھا جائے کہ انکو کس بات کی سزا دی گئ کیوں انکو سی کیٹیگری میں رکھا گیا،ان تمام الزامات کی بھی انکوائری ہو اور انکو بھی جواب دیا جائے کہ اور سب کو بھی پتہ چلے کہ انکے کیرئیر کے ساتھ کیوں اور کس لیے کھیلا گیا،عمر شیخ یہ بھی کہتے ہیں کہ انکو آئی جی اسلام آباد بھی لگایا جارہا تھا مگر وہ لگنا نہیں چاہتے تھے،عمر شیخ کو نگران حکومت میں اس وقت کے آئی جی ڈاکٹر کلیم امام نے آر پی او ڈیرہ غازی خان لگایا تھا،کافی دیر تک وہ اس عہدے پر تعینات رہے پھر اچانک انکو تبدیل کردیا گیا اور باقی کسی رینج کے آر پی او کو تبدیل نہ کیا گیا،عمر شیخ کو سپیشلائزڈ پروٹیکشن یونٹ کا ڈی آئی جی تعینات کردیا گیا،میرے خیال میں اس معاملے کی انکوائری ضرور ہونی چاہیے کہ عمر شیخ کو ترقی کیوں نہیں دی گئی اور اگر ان پر کوئی الزامات تھے تو پھر انکو او ایس ڈی بنایا جاتا نہ کہ سپیشلائزڈ پروٹیکشن یونٹ میں لگایا جاتا یا اگر کوئی سنگین الزامات تھے تو انکو محکمہ سے فارغ کردیا جاتا وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انکو کس بات کی سزا دی گئی اور یہ جاننا ہر اس عمر شیخ کا حق ہے جسکو پسند ناپسند کی بنا پر ترقی سے محروم رکھا جاتا ہے،ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی افسر کو ترقی سے محروم رکھا گیا ہو،یہ سلسلہ پسند نا پسند کی بنیاد پر ابھی بھی جاری ہے،مگر عمر شیخ وہ پہلا افسر ہے جو اپنے ساتھ زیادتی کے جوابات لینے کے لیے آواز بلند کرچکاہے،اگر عمر شیخ سچے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری ایک بورڈ تشکیل دے جو عمر شیخ کی حق تلفی کا کچا چٹھا سب کے سامنے لائے اور اس انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ہر اس کردار کو سزا دے جو اس معاملے میں شریک تھا،چاہے وہ جو بھی ہو،اور اگر ایسا ایک بار ہوگیا تو مجھے پورا یقین ہے کہ بغیر کسی وجہ کے کسی افسر کی حق تلفی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکے گا اور ناہی مزید عمر شیخ اپنی آواز بلند کریں گے اور نہ ہی سنیئر اور جونیئر کی جنگ ہوگی اور نہ ہی ہوئی ایک دوسرے کے خلاف ہوگا،اگر سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے تو پسند نا پسند سے ہٹ کر میرٹ کو قائم رکھنا ہوگا،عمر شیخ کے بارے میں ایک یہ بھی رائے قائم کی جارہی ہے کہ انکو نون لیگ کے خلاف استعمال کیا جائے گا مگر اسکا وہ جواب دے چکے ہیں کہ انکو کوئی ایسا سیاسی کیریئر نہیں اور نہ ہی انکی کبھی کوئی سیاسی تعیناتی کی گئ،سی سی پی او لاہور عمر شیخ ایک قتل کیس میں روزانہ کی ہونے والی پیش رفت چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوا رہے ہیں،انکی تعیناتی سے قبل ذوالفقار حمید بھی اس کیس کی رپورٹ بھجواتے تھے مگر عمر شیخ کو تعیناتی کے بعد اس کیس کا علم جب ہوا جب ان سے چیف سیکرٹری نے رپورٹ مانگی،کسی افسر نے انکو نہ بتایا کہ اس کیس کی روز کی اپ ڈیٹ جاتی ہے،سی سی پی او نے اس کیس کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن،ایس ایس پی انویسٹیگیشن،ایس پی سی آئی اے،ایس پی انویسٹیگیشن،ڈی ایس پی سی آئی اے کینٹ ،ایس ایچ اوز اور انچارجز کو اپنے دفتر بلایا اور وہاں سابق ایس ایچ او کو نااہلی پر ہتھکڑی لگانے اور ڈی ایس پی سی آئی اے کو تبدیل کرنے کا حکم دیا،مگر اچانک انکو رحم آگیا اور انہوں نے اس کیس میں افسران کو مزید مہلت دے دی،سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ سی سی پی او نے اپنے ایک ریڈر سے ایک کیس کی دفعات کے متعلق پوچھا اور ریڈر کی جانب سے درست جواب نہ دینے پر اسکو بھی سزا دی گئی ہے،سی سی پی او لاہور عمر شیخ سسٹم کے ساتھ،ساتھ ان پولیس افسران کو بھی ٹھیک کرنا چاہتے ہیں جو درست کام نہیں کررہے،سی سی پی او کے بارے میں تاثر ضرور ہے کہ وہ انتہائی سخت ہیں مگر داتا دربار میں حاضری کے دوران انہوں نے اپنے سٹاف اور وہاں موجود دیگر پولیس افسران اور اہلکاروں کو قصے اور لطیفے بھی سنائے اور ایک پولیس افسر کو یہ بھی کہا کہ جب سے میں سی سی پی او لاہور تعینات ہوا ہوں،ہر پولیس والا اپنے نام کے ساتھ شیخ لگا رہا ہے،مگر وہاں موجود پولیس افسر نے بتایا کہ میں بھی واقعی ہی شیخ ہوں،سی سی پی او نے پنجابی میں محاورہ بولا،،،جیڑا غلطی کرے گا اونوں میں چھڈنا نئی،اسی روز ہی وہاں موجود پولیس افسران نے دھیمہ اور سخت مزاج عمر شیخ ایک ساتھ ہی دیکھا،مجھےلگتاہے عمر شیخ اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کھل کر کریں گے جیسے وہ کسی دوسرے کی کھل کر مخالف کرتے ہیں کیونکہ اس محمکہ میں کھل کر مخالفت کے بجائے منافقت سے کام لیا جاتاہے،عمر شیخ اپنا فارمولا تو کامیاب کرانا چاہتے ہیں مگر سی سی پی او کو اس طرف بھی دھیان دینا ہوگا کہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے جب پولیس والا مدعی کا کہتا ہے کہ اگر آپکے پاس گاڑی ہے تو میں ابھی ریڈ کرلیتا ہوں،یاپھر پٹرول کا خرچہ دے دیں،کیونکہ پولیس والے کو بھی پتہ ہے کے اسکو محکمے نے تو اخراجات دینے نہیں اور اپنی تنخواہ وہ کیوں خرچ کرے،وسائل دینا بھی افسران کا کام ہے،جب گشت کرنے والے افسر کو یہ پتہ ہوگا کہ سرکاری گاڑی میں تیل اپنی جیب سے نہیں ڈلوانا،سرکاری گاڑی کے خراب ٹائر اور اسکے دیگر کام اپنی جیب سے نہیں کرانے تو پولیس والا بھی کوشش کرے گا کہ پیسے نہ لے،جب تفتیشی کو یہ پتہ ہوگا کہ عدالت میں ملزم کو پیش کرنے کے لیے اسکو اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی پر تیل ڈلوا کر نہیں جانا پڑے گا تب وہ بھی پیسے نہ لینے کی کوشش ضرور کرے گا،جب علاقے سے ملنے والی لاش کو مردہ خانے جمع کرانے کے لیے اس پر آنے والے اخراجات پولیس والا جیب سے ادا کرے گا تو وہ پیسے ضرور کے گا،کیونکہ وہ تنخواہ سے صرف بچے تو پال سکتا ہے،محکمہ نہیں چلا سکتا،سی سی پی او گشت کے لیے گاڑیوں کو ملنے والے فیول کی تفصیلات بھی ضرور منگوائیں اور اسکی مقدار بڑھانے کے لیے بھی کوشش کریں تاکہ پولیس کی گاڑیاں گشت کرتی نظر آئیں اور شہریوں کو تحفظ کا احساس بھی ہو،جرائم پیشہ افراد کو بھی پولیس کی دوڑتی گاڑی نظر آئے تاکہ وہ بھی پولیس کو دیکھ کر دوڑ لگا سکیں،پولیس والے سے آٹھ یا دس گھنٹے ڈیوٹی لینے کی کوشش کی جائے،پولیس والے کو بھی ہفتے میں ایک دن چھٹی دی جائے،پولیس والے کو بھی اچھے کام پر فوری شاباش یا انعام دیا جائے تاکہ وہ بھی سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور انکے فارمولے کو مدتوں یاد رکھے،سی سی پی او لاہور عمر شیخ چند روز قبل ڈکیتی مزاحمت پر زخمی ہونے والے باپ بیٹے کی عیادت کے لیے انکے گھر گئے ہے بھی میری نظر میں زندہ دلان لاہور کو ایک اچھا تاثر دیا گیا ہے کیونکہ اس سے قبل ایسے اقدامات بہت کم اٹھائے گئے،سی سی پی او عمر شیخ کا فارمولا اگر کامیاب ہوگیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ انکی ترقی کے بعد پنجاب پولیس کی کمان بھی انکو دی جائے گی،سختی کے ساتھ،ساتھ پیار بھی ضروری ہے اور شائد سختی کے بجائے پیار سے زیادہ کام لیا جاسکتا ہے،امید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کے اقدامات سے شہریوں کو فائدہ ضرور پہنچے گا ،
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments