ملک صاحب، تحریر: حسن نصیر سندھو

کہا جاتا ہے لفظوں کے بھی ذائقے ہوتے ہیں۔ بولنے سے پہلے چکھ لیں۔ بقول ملک صاحب کے الفاظ جو بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، لوگ مطلب ہمیشہ اپنی مرضی کے نکالتے ہیں۔ سکول میں ملک صاحب کے الفاظ ہی تھے، جنہوں نے مجھے ان کی طرف راغب کیا تھا۔ جب ہمارے انگریزی کے استاد سب بچوں سے ان کا تعارف پوچھ رہے تھے، تو ملک صاحب کی باری آنے پر استاد جی نے پوچھا، واٹ از یور نیم؟ ملک جی بولے لانگ لائف، استاد جی نے حیرت سے بولا: واٹ؟ ملک جی سینے پر ہاتھ رکھ کر بولے، سر عمر دراز ۔ استاد جی نے پوچھا، واٹس یور فاڈر نیم؟ ملک جی بولے گارڈ گیو۔ استاد جی کو پھر سمجھ نہ آئی، تو ملک صاحب نے بتایا اللہ دیتہ ۔ استاد جی تھوڑے تلملا کر بولے واٹس یور مڈر نیم؟ ملک جی بولے آنر وومین، استاد جی نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا، وٹ ڈو یو مین۔ ملک صاحب نے عاجزی سے بتایا عزت بی بی۔ استاد جی نے اخری سوال پوچھا ویئر آر یو فرام ؟ ملک جی بولے گرین پور تھاوزنڈ۔ اور ساتھ ہی ہم سب کی آسانی کے لیے بتا دیا، میری مراد ہری پور ہزارہ سے ہے۔

ملک صاحب جیسے ہی کرسی پر بیٹھے ہم نے کہا آپ نے یہ کیا کر دیا؟ کہتے ہیں ، او کچھ نہیں ہوندا۔ بعد میں انکشاف ہوا ملک صاحب کا یہ فقرہ ان کا تکیہ کلام تھا۔ ملک صاحب کو سکول، کالج اور یونیورسٹی میں ایک ہی شکوہ رہا۔ کہا کرتے تھے، لوگ کچھ دن سگریٹ، شراب پیتے ہیں اور لت لگ جاتی ہے۔ اور ہم بچپن سے پڑھائی کر رہے ہیں، لیکن آج تک عادت نہیں ڈلی۔ ساتھ فخر سے کہتے ہیں انسان کو خود پر کنٹرول ہونا چاہئے۔ جب نوکری کرنے کی باری آئی، تو کہا کرتے تھے، کسی بھی کام سے انکار نہ کرو پر کام ایسا کرو کے اگلی دفعہ لوگ کہیں، بھائی تو رہنے دے، میں خود کر لوں گا۔ شاید اسی لیے ملک صاحب کا شمار ان کامیاب لوگوں میں ہوتا ہے۔ جو زندگی میں پچھے رہ جاتے ہیں، اور ان کی سوچ آگے نکل جاتی ہے۔ ایک دفعہ معاشی فکر میں تھے، ہم نے کہا کچھ کرتے کیوں نہیں، ملک صاحب نے کہا پیسہ آئے تو کچھ کروں، اور پیسہ کہتا ہے ملک تو کچھ کرے تو میں آؤں۔ ایک دن ملک صاحب کے سر سے خون نکل رہا تھا، پوچھا یہ کیسے ہوا؟ کہتے میں ہاتھ سے دیوار گرا رہا تھا، تو کسی نے آواز دی ملک جی کبھی کھوپڑی کا بھی استعمال کر لیا کرو ۔ اور پھر خودی ہنس کر کہتے اور یار تو پریشان نہ ہوں کچھ نہیں ہوندا۔

ایک دفعہ ملک صاحب نے اپنے دوست کو سگریٹ پیش کیا۔ اس نے ایک کش لگا کر، منہ بسورتے ہوئے پورے سیگریٹ کو پاؤں تلے روندتے ہوئے کہا، یہ میرے برانڈ کا نہیں لگتا۔ ملک صاحب نے سگریٹ ضائع ہونے کے دکھ میں پہلے اپنے دوست کی عقل کو کوسا، پھر ان کے ذائقے کو کوسا، پھر ان کی اگلی پچھلی نسلوں کو کوسا۔ پھر اس لمحے کو کوسا جب انھیں سگریٹ پیش کی۔ میں نے کہا، یار ایک سگریٹ ہی تو تھی۔ تو کہتے پورے دس روپے کی تھی، یار دس روپے کی۔ جس انداز میں انہوں نے مجھے سمجھایا، مجھے بھی دس روپے ضائع ہونے کا دکھ ہوا۔ میرا دکھ دیکھتے ہوئے، ملک صاحب نے مجھے جوس پلانے کی آفر کی۔ جو میں نے شش و پنج میں قبول فرمائی، اور گاڑی میں بیٹھ کر جوس شاپ کی طرف چل پڑے۔ تو ایک گاڑی زور سے ہماری گاڑی میں ٹکرا گئی۔ میں نے سوچا دس روپے پر ملک صاحب نے اپنے دوست کو نہ بخشا، یہ تو گاڑی ہے، اس شخص کی ہڈی پسلی ایک کر دیں گے۔ پر ملک صاحب نے باہر منہ نکال کا باآواز بلند فرمایا، اور پریشان نہ ہو کچھ نہیں ہوندا۔ میں نے جوس کا سیپ لیتے ہوئے پوچھا، ملک صاحب سگریٹ پے اتنا واویلا اور ہزاروں کے نقصان پر ماتھے پر بل تک نہیں۔ کہتے یار اے میری گڈی نہیں اے مانگی تے لایا اے تے سگریٹ اپنا سی۔ ایک شام موبائل شاپ کے باہر ملے، میں نے پوچھا، کدھر؟ کہتے یار مجھے تو اس نئے موبائل نے کنگال کر دیا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیوں۔ ملک صاحب بولے، روز صبح چارج کرتا ہوں اور شام کو لکھا آ جاتا ہے، بیٹری لو اب تک بیس بیٹریاں بدل چکا ہوں۔

شادی کے بعد ایک دن ان کی خوشی دیدنی تھی۔ میں نے وجہ پوچھی، کہتے ہیں آج بجلی گئی ہوئی تھی، تیری بھابھی نے لپ اسٹک مانگی۔ میں نے پوچھا اس میں خوشی کی بات کیا ہے؟ کہتے ، یار میں نے نے اسے ایلفی پکڑا دی اب وہ چپ بیٹھی ہے، میں نے سر پیٹ لیا۔ کہتے اور یار کچھ نہیں ہوندا۔ ان کی حرکتوں سے ایک دن ان کے والد کہتے، میں خودکشی کرنے لگا ہوں، تو میں نے روکا۔ تو ملک صاحب نے مجھے روکا اور کہتے کر لیں دے یار کچھ نہیں ہوندا۔ ملک صاحب آج کل کسی حکومتی شکایت سیل کے انچارج ہیں۔ بڑی سے بڑی شکایت بھی آئے تو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں او یار کچھ نہیں ہندا۔ ہمارا مجموعی پاکستانی رویہ اسی فقرہ کے گرد گھوم رہا ہے، او یار کچھ نہیں ہوندا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں