تخت بائی، تحریر: ثناء آغا خان

کمراٹ کے اس سفر نے قدرت کے حسین نظارے تو دکھائے ہی ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ پتھروں اور پہاڑوں کے باسی اپنی روایات اور ثقافت کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی میں بھی پہاڑ سا دل رکھتے ہیں ۔تین دنوں کی تھکا دینے والی تفریح کی احتتامی تقریب کل رات تخت بائی کے ایک خوبصورت ریسٹورنٹس میں فضل قیوم ندا صاحب اور ان کے ساتھیوں کی پر خلوص دعوت سے ہوئی ۔ہماری حالت کچھ بہتر نہیں تھی مگر پشتون ادبی تنظیم ادبی ٹنولہ کے انداز مہمان نوازی اور روایتی کھانوں کی مہک نے ایک دم تروتازہ کر دیا۔
کسی بھی زبان ‘علاقہ ‘قبیلہ اور رنگ و نسل کے مابین قلم بہت قیمتی اور بڑا رشتہ ہے مگر صرف صاحب ذوق ہی اس رشتے کی قدر جانتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکالتے ہیں ان انجان لوگوں کے لئے جن کا ان سے بس قلمی رشتہ ہو کل کی گزری ایک شام انجان لوگ انجان شہر مگر ایک لمحے کو بھی ایسا نہیں محسوس ہوا کہ ہم لوگ اس شہر میں مسافر ہیں ۔
سب سے بڑھ کر تخت بائی کے بارے میں بہت وہ کچھ جاننے کا موقع ملا جو اس سے پہلے ہم نہیں جانتے تھے ۔باتوں کے دوران معلوم ہوا کہ تخت بائی میں بھی کھنڈرات موجود ہیں جو کہ میرے لیے ایک نیا انکشاف تھا ۔زیادہ تر لوگ زراعت سے منسلک ہیں مگر ان لوگوں میں اپنے علاقہ کی ترقی کی فروغ کے لیے بے حد جذبہ موجود ہے ۔یہ تنظیم بھی اسی جذبے کا ایک حصہ ہے آخر میں بس یہی کہوں گی کہ میں مشکور و ممنون ہو ان تمام لوگوں کی جنہوں نے ہمارے دیر سے آنے پر بھی ہمارا پر جوش انداز سے استقبال کیا ۔
شکریہ تخت بائی کہ جس کے دامن نے ایسے جوہر دیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں