زنالجبر کی اسلامی سزا سنگین جرم کا واحد حل ہے، تحریر: کائنات ملک

گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کا یہ اظہار خیال اس تشویشناک صورت حال کی بھرپور عکاسی کرتا ہے جو مسلسل بڑھتے ہوئے سنگین جنسی جرائم کے باعث ہمیں درپیش ہیں۔’’خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب عناصر عبرتناک سزا کے مستحق ہیں‘ انہیں سرعام پھانسی دی جانی یا جنسی طور پر ناکارہ بنا دیا جانا چاہئے تاکہ وہ عبرت کا نشان بن جائیں‘حالیہ موٹر وے کے واقعے پر شدید صدمے کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس طرح کے واقعات صرف پولیس کی کارروائیوں سے حل نہیں ہو سکتے۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے پورے معاشرے کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نے ایسے جرائم کے انسداد کیلئے سخت سزاؤں کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس مقصد کی خاطر مطلوبہ قانون سازی کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اس پر جنسی زیادتی کے مجرموں کو مردانہ صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے قانون سازی کی بات ہورہی ہے۔ مگر جنسی زیادتی کے مجرموں کو مردانہ صلاحیتوں سے محروم کر کے نامرد بنانے کے قانوں سے آدھے سے بھی زیادہ پاکستانی مرد نامرد بن سکتے ہیں ۔اور خواجہ سراوں کی برادری میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے ۔جنسی زیادتیوں کو روکنے کا واحد حل اسلامی سزا،سزائے موت ہی ہے۔ ماوزے تنگ نے ایسے مجرموں کے اعضائے نفسانی کاٹ دینے کا فیصلہ نافذ کیا تھا، مگر بعد ازاں اسے بھی تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ ویسے ہمارا معاشرہ بہت ہی گندا اور بدبودار ہوچکا ہے۔ جنس قدرت کا ایک بہت خوبصورت تحفہ ہے، لیکن ہم نے اس تحفہ کو خدا کے دیے ہوے ضابطے میں نہیں رکھا۔ اوراسے بے لگام کر کے اسے وحشی صفت میں لاکھڑا کردیا۔جس کی وجہ سے محرم نامحرم رشتے گھر میں ہوں یا گھر سے باہر کسی طرح بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ ایک بے قابو وبا کی شکل اختیار کر ۔
گی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وبا کی روک تھام کے لیے اس کو بوتل میں کیسے بند کیا جاے۔اس کے لیے حکومت کو سخت سے سخت سزا کا قانون فوری بنانا ہوگا۔ اور ساتھ ساتھ اخلاقی و مذہبی تعلیم کا بھی بندوبست کرنا ہوگا یہ وقت کی اہم ضرورت
ہے۔ حکُومت کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چائیے ۔کہ اگر کوئی نامرد شخص دھوکے سے کسی عورت سے شادی کر لے تو اس عورت کی زندگی تو تباہ برباد ہو ہی جائی گی۔ حکومت کی طرف سے ریپسٹ کے لیے نامردی کی سزا تجویز کرنا ان ریپسٹ کے لیے چور دروازہ کهولنے کے مترادف ہے۔ اور پھراس بات کا کیسے پتہ چلے گا۔ اور اس مرد کو کون چیک کرے گا کہ واقعی یہ اس مردانہ صلاحیت سے محروم ہے کہ نہیں ؟ اکثر بااثر لوگ پیسے کے بل بوتے جھوٹا میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھی بنوا لیتے ہیں ۔اور پاکستان
میں یہ چیز سفارش اور رشوت کے بل بوتے اسانی سے بن بھی جاتی ہیں ۔اور پھر یہ کس کو پتہ چلے گا یہ شخص نامرد ہے یا مرد ہے؟ ایک باوقار معاشرے میں سنگین جرم پر سزاوں کا مطلب یہ ہوتا ہے۔کہ اس سے لوگوں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔اور ایسا جرم دوبارہ نہ ہوسکے ۔اور جرائم پیشہ سوچ کے حامل لوگ سزا کے خوف سے جرم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ اگر ہم نے ملک خدا دار کو پرامن معاشرہ اور پوری دنیا میں باوقار بچوں عورتوں کے لیے محفوظ بنانا ہے۔ تو ہمیں کچھ فیصلے سخت بھی کرنے ہونگے۔ اگر ہم سچے پکے مسلمان ہیں اور فلاحی اور اسلامی ریاست کے دعوے دار ہیں ۔تو ہمیں۔اللہ کے دیے ہوے اسلامی قانون کو لاگو کرتے ہوے۔ یعنی اسلام کے مطابق مجرموں کو سزا دینی ہونگی ۔ جب بھی کسی سنگین جرم کی پاداشت میں موت کی سزا کی بات ہوتی ہے ۔تب نجانے کہاں سے انسانیت بیدار ہوجاتی ہے۔ اور ہم موت کی سزا کی بجاے اس شخص کے لیے اور راستہ ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جب یہ کائنات بنائی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے اصول اور قوانین اور جرم اور جرم کے مطابق سزایں بھی قران پاک میں انسان کی اسانی اور فلاح وبہتری معاشرے میں بیگاڑ سے بچاو اور ایک انصاف پر مبنی خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ساتھ ساتھ واضع کردیں ۔اللہ تعالی خود اپنے بندوں سے ستر ماوں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا خالق ومالک ہے۔ جب ہم قران سنت اور اسلام کی دی ہوئی تعلیمات اور اس کے بتاے ہوے اصول ضوابط اور قانون سے انکھیں پھیر لیں گے ۔ان قوانین کو انسان مخالف قوانین سمجھتے ہوے اس پر عمل نہیں کریں گے ۔اور مجرموں کے لیے انسانیت کے نام پر اسانیاں پیدا کرتے رہیں گے۔تو قیامت تک یوہی جرم بڑھتے رہیں گے۔ اسلام کے نام سے بننے والی فلاحی اسلامی ریاست میں اسلامی قانون ہو اور عوامی ریفرنڈم کروا لیا جائے کہ پاکستان کی عوام کیا زنا بالجر کی سزا کیا
چاہتی ہے۔سر عام پھانسی یا اس شخص کی نامردی ۔ویسے بھی وہ شخص جو اس طرح کے سنگین جرم کرکے خود کو معاشرے میں نامرد ثابت کرچکا ہوتا ہے۔ جنسی زیادتیوں کی روک تھام کا واحد حل سزائے موت ہی ہے۔ ماوزے تنگ نےزیادتی کے مجرموں کے اعضائے نفسانی کاٹ دینے کا فیصلہ نافذ کیا تھا، جو بعد ازاں تبدیل کر دیا گیا۔ ویسے ہمارا معاشرہ بہت گندا اور بدبودار ہو چکا ہے۔ اب اسے صاف کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اب
اس حوس پرست وحشی صفت کے وبا کو اسلامی قانون کی بوتل میں بند کرکے سخت سزا یعنی سزاے موت کا قانون پر فوری عملدرامد کیاجائے۔ اور ساتھ ساتھ معاشرے میں اخلاقی و مذہبی تعلیم کا بندوبست بھی کیا جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں