لندن کا “امانت چن”، تحریر: وقاص محمود

پنجاب کے اسٹیج فنکار جگت بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان میں سے ہی ایک نامور فنکار امانت چن بھی ہے۔ میاں صاحب کی لندن سے تقریر سننے کے بعد امانت چن کی ایک جگت ذہن میں بار بار گردش کر رہی ہے۔
امانت چن ایک ڈرامے میں کہتا ہے کہ ایک انتہائی بے سُرا سنگر سٹیج پر گانا سنانے میں مصروف تھا کہ ایک شخص پنڈال میں سے کھڑا ہوا اور سنگر سے اونچی آواز میں کہنے لگا کہ ” سوہنیا، میں تینوں کُج نئیں کینا، میں اونوں نئیں چھڈنا جیڑا تینوں لے کے آیا اے” (میں نے تمھیں کچھ نہیں کہنا مگر اسے نہیں چھوڑوں گا جو تمھیں لے کر آیا ہے)۔
میاں صاحب نے کراچی کے ادھڑے ہوئے ڈان کی طرح لندن سے خطاب کرتے ہوئے کچھ اسی طرح وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ،ہماری جنگ وزیر اعظم عمران خان سے نہیں، انہیں لانے والوں سے ہے۔تاہم اس طرح کے بیانات پہلے بھی جگت تھے اب بھی جگت سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستانی اداروں اور عدلیہ کو للکارا ہے۔ میاں صاحب ابھی تک اسی خوش فہمی میں ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ،حالانکہ انہوں نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بھی عوامی مسئلے پر بات نہیں کی، جبکہ دوسری طرف بلاول، شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں نے سیلاب اور مہنگائی کے بارے میں بات کی ہے۔
اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف ابھی تک خود کو عقل کُل سمجھتے ہوئے یہی فرض کئیے بیٹھے ہیں کہ جیسے، ان کا اقتدار سے نکلنا ہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور عوام الناس ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہاتھوں میں موبائل تھامے، ان کے ایک اشارے پر سڑکوں پر آنے کے منتظر ہیں ،مگر یہ کام لندن تو دور کی بات، اب رائے ونڈ آ کر بیٹھنے سے بھی ممکن نہیں لگ رہا۔
انہوں نے اسی نظام کو للکارا ہے جسے ٹھیک کرنے کا موقع انہیں گزشتہ 35 سال سے ملا ہوا تھا۔ بیشتر اداروں میں سیاسی مداخلت، اقرباپروری، رشوت، کرپشن، نااہلیت کو نظرانداز کرکے اداروں کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں میاں صاحب اور ان کی ٹیم کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ گزشتہ پانچ سال خود یہی کہتے رہے کہ حکومت کو چلنے دیا جائے، جو ٹھیک کام نہیں کرے گا، عوام انتخابات میں خود ہی فیصلہ کرلیں گے ،جبکہ جس کے خلاف دھاندلی کی تحریک چلانے کیلئے کمر کس رہے ہیں ،وہ خود اس طرح کی تحریکوں کا چیمپئن ہے، اس کی قیادت میں اسکی دھواں دار تحریکوں کا اسکے یہاں رہتے ہوئے بھی مذاق اڑایا گیا ،اور آپ کی تحریک تو پھر لندن سے چلنی ہے۔
آخر میں میاں صاحب نے اپنے بیٹے اور سمدھی اسحاق ڈار کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کو نظر انداز کرتے ہوئے، بذاتِ خود ڈیجیٹل ورلڈ میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لندن سے بیٹھ کر ٹویٹ کرنے والے ان دونوں حضرات پر ٹویٹر صارف جس طرح “چادریں” چڑھاتے ہیں وہی چادریں اب لندن سے بیٹھ کر ٹویٹ کرنے والے میاں صاحب پر بھی چڑھیں گی۔ انہوں نے “شریکوں” کو جلانے کیلئے، لوکیشن بھی پاکستان کی ہی، ایسے ڈالی ہے ،جیسے نوعمر لڑکے اپنے شریکوں کو جلانے کیلئے مانے برگر والے کے پاس بیٹھ کر “کے ایف سی اور میکڈونلڈز” کی لوکیشن ڈالتے ہیں۔ اگر وہ پاکستانی عوام کی راہنمائی کرنا ہی چاہتے ہیں تو عوامی مسائل پر توجہ دیں ،مگر لندن کی بجائے پاکستان میں بیٹھ کر ،چاہے مقدمات رکاوٹ بنیں یا کچھ بھی ہو۔ جب یہاں بیٹھ کر مقدمات کا سامنا کریں گے تو انہیں انکو سیاسی مقدمات ثابت کرنا ہوگا۔ بہرحال لگتا یہی ہے کہ وہ مشرف دور میں اپنی جلاوطنی کے دوران، جس طرح جدید ٹیکنالوجی سے اپنے “فارغ البال” سر کی کھیتی ہری بھری کر کے، ایک بدلے ہوئے نواز شریف کی حیثیت سے سامنے آئے تھے ، اب شاید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع ابلاغ کے ماہر کا کردار ادا کر کے، پاکستانیوں کو انکے ان ازلی مسائل سے چھٹکارا دلا سکیں ، جنہیں وہ تین مرتبہ وزیراعظم رہ کر بھی ختم نہیں کر پائے تھے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں