پھولوں سے نزاکت چھین لو، تحریر :ثناء آغا خان

آج اعلیٰ الصبح جب سیر کے لئے باغ کا طرف رخ کیا تو کچھ بیزار سی تھی اسی بیزاری کے ساتھ تیز قدم بڑھاتے ہوئے میں باغ کے ٹریک پر چلنے لگی کہ اچانک میری نظر ایک لال رنگ
کے خوبصورت پھول پر پڑی پھول اور بھی تھے باغ میں مگر ایسا لگا جیسے وہ پھول مسکرا کر مجھے خوش آمدید کہہ رہا ہو ۔اس کو دیکھ کر میں ایک دم تروتازہ ہو گئی۔ آگے بڑھی اس کی مہک کو محسوس کیا ۔وہ رنگت میں باقی تمام پھولوں جیسا تھا مگر کچھ خاص تھا اس میں جو اس کو باقی پھولوں سے منفرد بنا رہا تھا ۔
ایک لمحے کو دل چاہا کہ اس کو توڑ لوں۔ توڑ کر اپنے پاس رکھ لو مگر دوسرے لمحے یہ احساس ہوا کہ اپنی وقتی خوشی کی خاطر اس کی خوبصورتی اور رعنائی ہمیشہ کے لئے کیسے ختم کر سکتی ہو ۔اس باغ میں مہکنہ اس کا حق ہے ۔اس کی خوبصورتی اسی ڈال پر ہے ۔اس کا خوبصورت ہونا خدا کی قدرت ہے ۔ میں کون ہوتی ہوں اس کی خوبصورتی کو اپنی چند لمحوں کی خوشی کی خاطر چھین لو ۔
بہت دفعہ آگے بڑھی اور پیچھے ہٹی اسی کشمکش میں تھی ابھی یہ بھی جانتی تھی کہ اس پھول کو اگر میں نہیں توڑوں گی تو کوئی اور توڑ لے گا ۔کیونکہ ہماری عادت ہے ۔خوبصورتی اور وہ بھی وہ خوبصورتی جس کا کوئی نگہبان نہیں توڑوں ‘چھین لو ‘فنا کر تو دو۔۔۔۔۔
اس پھول کو کیا ضرورت تھی اتنا خوبصورت ہونے کی؟ اس پر ظلم یہ کہ باغ میں کوئی مالی بھی نہیں ۔اوپر سے حسن پرستوں کا یہ ہجوم جو حق سمجھتے ہیں یہ شاخیں نوچ لینا بھی۔ چاہے باغ کو زوال ہی کیوں نہ آ جائے۔

ہم جانا ہی نہیں چاہتے کہ پھول اپنی ساتھیوں کے ساتھ کتنا خوش ہے۔ہم بس یہ جانتے ہیں کہ یہ خوبصورت پھول ہمارے ہاتھوں کی زینت بنے ۔اس کے ٹوٹنے سے پکڈنڈی اداس ہو جائے گی ۔وہ کلیاں جو ابھی کھلی نہیں یہ دیکھ کر بن کھلے ہی مرجھا جائیں گی۔یہاں تو کلیاں بھی مثل دی جاتی ہیں۔لوگ جڑوں سے نکال کر شاخیں روند دیتے ہیں ۔ اس کی خوبصورتی اس کا زوال بن جاے کی گئی میں جانتی ہو۔
اے بنانے والے !کیوں بنایا اسے ایسا؟ اگر ایسا بنایا تو کیوں لگایا اسے اس اشرف المخلوقات کے آنگن میں؟
پھول کے حسن نے مجھے مزید پریشان کردیا ۔یہاں روز معصوم کلیاں کچلی جاتی ہیں۔
صبح ایک واٹس ایپ گروپ میں موٹروے واقعہ کو ایک نئے رنگ میں پڑھ کر اور اس خاتون پر غلط الزامات سن کر میں خود سے ہی الجھ پڑی تھی کہ کیوں ہم اتنے سفاک ہوتے جا رہے ہیں ۔جس پر گزری وہ دل جانے
ہم بیٹھے لکھنے فسانے ہیں
روز کا معمول بن گیا بچوں کا ریپ’ خواتین سے زیادتی ‘یہاں تک کہ درندگی کی انتہا جانوروں کو بھی یہ اشرف المخلوقات نہیں چھوڑتی ۔
قصور کس کا قانون بنا لیں اور ان پر عملدرآمد نہ کروانے والے اداروں کا یا ان معصوم بچوں کا جو اپنی معصومیت میں اپنے گرد موجود بھیڑیوں کی خصلتیں نہیں بھاپ سکتے ۔یا ان خواتین کا جو حجاب نہیں کرتی یا اس بنانے والے کا جس نے حسن تخلیق کیا۔ہم میں سے بہت خود پر کبھی الزام نہیں دیں گے ۔مرد عورتوں پر الزام دیں گے۔عورتیں مردوں پر الزام دیں گے۔تو یقینا قصور بنانے والے کا ہیں ۔مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم محفوظ ہیں وہاں ایسے گھٹیا واقعات بہت کم ہوتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ہر روز ایسے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں ۔بات کرنے پر ایک جنگ چھڑ جاتی ہے ۔عورتوں کو ایسے نہیں کرنا چاہیے ۔معاشرہ عورتوں کو ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا ۔ہمارے معاشرے میں عورتوں کو یہ کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ ۔سمجھ نہیں آتی کے جن معاشروں میں عورتیں تقریبا برہنہ باہر سڑکوں پر پھر رہی ہوتی ہے وہاں ایسے واقعات کیوں نہیں ہوتے؟
ان تمام سوچو اور بوجھل دل کے ساتھ پھول ہو اکیلے چھوڑ کر میں اس ٹریک پر چلتی رہی ۔انہی سوچوں میں گم میں نے اس ٹریک پر دو چکر لگا لیے تھک گی سوچا گھر کی طرف نکلتی ہوں ۔مگر ایک لمحے کو خیال آیا کیوں نہ جاتے جاتے اس پھول کو آخری بار دیکھ لیں ۔اسی نظریے سے چل پڑی مگر جب وہاں پہنچی تو وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا ۔پھول اب اس ڈال پر نہیں تھا ۔ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے میں نے اپنے ہاتھوں سے اس پھول کو توڑ لیا ۔باقی کلیاں اور پھول مجھے شکایت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے میں یہ منظر زیادہ دیر نہیں دیکھ سکی اور بوجھل قدموں سے واپس نکل آئی ۔میں جانتی تھی جس میں بھی پھول توڑا میں بھی اس کے گناہ میں برابر کے شریک ہوں کیوں کہ میں کچھ نہیں کر پائی میں بے بس تھی ۔ایسے ہی روزمرہ ہم بہت سی چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر ہماری بے بسی ہمیں بے بس کر دیتی ہے بس آخر میں ملامت و ندامت رہ جاتی ہے ۔جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں