آستین کا سانپ، تحریر: کائنات ملک

گزشہ دنوں اے پی سی سے میاں نواز شریف نے اپنے وڈیو خطاب میں جن باتوں کاذکر کیا۔ان میں یہ کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، دوسرا یہ کہا کہ سینٹ کے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں ہماری صوبائی حکومت گرا دی گئی اور نمبر گیم تبدیل
کردیے گئے۔حالانکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اور سینٹ چیئرمین اصف علی زرداری صاحب نے گرائی تھی۔
اب اگے سنے کہ پی پی پی کے سابق صدر اصف علی زرداری نے مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اج اپ کو جن جن مسائل کا سامنا ہے۔ مجھے اسکا شدت سے احساس ہے ۔کیونکہ میری بہن فریال تالپور اور شہید مخترمہ بینظیر بھٹو پر بھی ظالموں نے جعلی کیس بنائے تھے اور انہیں جیل
میں ڈالا تھا۔ اگر اپ ماضی کو دیکھیں۔ کہ اصف زرداری کی بہن فریال تالپور اور محترمہ بینظیر بھٹو پر کیسز خود ن لیگ کی حکومت نے ہی بنائے تھے۔ اور محترمہ بی بی شہید کو تب بھی
جیل میں ڈالنے والے بھی یہی ن لیگی ہی تھے۔ میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ منتخب وزیراعظم کو غدار کہہ دیا گیا، اگر میاں نواز شریف کا حافظہ تیز ہے تو انہیں یقینا یہ بات اچھی طرح سے یاد ہونی چاہیے۔ کہ یہ نعرہ پی پی پی کے صدر اصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے ہی لگایا تھا کہ ؛؛مودی کے یار کو کرپشن کے سردار ایک دھکا اور دو؛؛ ۔
اب دونوں پارٹیوں کے قائدین نے اپنی اپنی کرپشن چھپانے کے لیے اپنے اپنے خطابات میں لوگوں کی انکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی اور جن مظالم اور سیاسی انتقام کا بڑے درد دل سے ذکر کر رہے تھے۔اور خود کو خود ہی نظروں میں سچا اور مظلوم پیش کررہے تھے۔اور یہ خود ہی جانتے ہیں کہ اقتدار کی ہوس میں خود دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے
کےخلاف کیسز بناے تھے ۔ کل جو فصل انہوں نے بوئی تھی اج وہ کاٹ رہے ہیں ۔اور اج ان سب کا ایک پلیٹ فورم پر جمع ہونا ہی اس بات کی گواہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان حق اور سچ کے راستے
پر گامزن ہے۔ اب جب اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں نے آئندہ ماہ سے لاءعمل تیار کرتے ہوے۔ حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ بھی کیا۔اور اسلام آباد میں حکومت مخالف اتحاد قائم کرتے ہوے۔ اسے اے پی سی کا نام دیا گیا۔اس اتحاد کے پہلے اجلاس جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمان، جے یو پی کے اویس نورانی اور دیگر جماعتوں کے قائدین و رہنماؤں نے شرکت کی۔ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے اس میں شریک ہوئے۔ اے پی سی میں شریک اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد کو ’پاکستان ڈیموکریٹک الائنس‘ کا نام دیا گیا ، اے پی سی کو موئثر بنانے کے لیے اکتوبر میں حکومت کے خلاف احتجاج اور عوامی ریلیاں بھی نکالے جانے کا اعلان کیا گیا۔ اور ان ریلیوں اور احتجاج میں ملک میں آزاد شفاف نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جاے گا۔اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی بھی ورانگ دی گئ ۔ اور کہا کہ حکومت کو صرف جنوری تک وقت دیا گیا ہے ، نئے انتخابات نہ کرانے کی صورت میں دھرنا یا مارچ شروع کیا جاسکتا ہے ، اس دوران اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی موجود ہے ۔ اب اتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف اور
اب میاں نواز شریف کی یاداشت کے لیے عرض ہے کہ 1988 کو جنرل ضیا الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کرکے 90 روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا ۔ اس وقت محمد خان جونیجو مسلم لیگ کا صدر تھا جب کہ نوازشریف پنجاب کا وزیراعلی۔ محمد خان جونیجو نے اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تو میاں نوازشریف نے اس کا ساتھ دینے کی بجائے فدا محمد خان کے ذریعے مسلم لیگ کا علیحدہ دھڑا بنانے کا اعلان کردیا اور اس دھڑے میں
خود شامل ہوگیا۔جب جنرل ضیاالحق نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں برطرف کردی۔ لیکن میاں نوازشریف کو پنجاب کا نگران وزیراعلی برقرار رکھا۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ نگران وزیراعلی نے خود ہی الیکشن کی مہم چلائی اور چار سیٹوں سے الیکشن بھی لڑا، دو سے ہارا اور دو سے جیت گیا۔ الیکشن سے ایک ہفتہ قبل سپریم کورٹ نے محمد خان جونیجو کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی حکومت کی برطرفی کا فیصلہ غلط تھا۔مگر اب تو الیکشن ہونے والے ہیں، اس لئے وہ محمد خان جونیجو کو بحال
نہیں کریں گے۔ میاں نوازشریف کی
طرف سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا۔ جب الیکشن ہوئے، تو بینظیربھٹو وزیراعظم بنی اور ٹھیک ایک سال بعد میاں نوازشریف نے اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا ۔ مگر وہ تحریک تو ناکام رہی۔مگر میاں نوازشریف نے صدرغلام اسحاق کے ساتھ ملکر بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کی سازشیں جاری رکھیں اور بیس ماہ بعد بالآخر بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے میں
کامیاب ہوگئے ۔1993 کے الیکشن میں جب محترمہ بینظیربھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنی۔تب بھی میاں نوازشریف نے ایک مرتبہ پھر محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے کیلئے دوبارہ سازشیں تیز کردیں۔ کبھی تحریک نجات کی صورت میں تو کبھی مہران بنک سکینڈل کے ذریعے اس وقت کے صدر فاروق احمد لغاری پر دباؤ ڈال کر۔ بالاآخر 26 ماہ بعد بینظیر کی دوسری حکومت بھی برطرف کردی گی۔
2008 میں پی پی پی کو دوبارہ اقتدار ملا۔ تب بھی میاں نوازشریف کا شازشی دماغ کو چین سکون نہ ایا اور صدر اصف علی زدداری کی حکومت کے خلاف سازشیں شروع کیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں لایا گیا، اس نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جو کہ اخر کار یہ تماشہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر ختم ہوا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے بعد پیپلز پارٹی نے راجہ پرویزاشرف کو وزیراعظم بنایا ۔تب بھی نون لیگ کے سازشی ٹولہ کو چین نہ ایا۔راجہ پرویز اشرف کے خلاف ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف
سپریم کورٹ میں چلا گیا۔اس کے بعد صدر اصف علی زرداری کو نااہل قرار دینے کیلئے میمو گیٹ سکینڈل لے کر میاں نوازشریف خود سپریم کورٹ چلا
گیا ۔پچھلے پینتیس برس میں محمد خان جونیجو سمیت پانچ وزرائے اعظم اور دو صدور مملکت کے خلاف میاں نوازشریف نے سازش کرکے حکومتیں گرانے کی کوشش کیں اور یہ گزشتہ روز بڑی ڈٹھائی سے جھوٹ بولتے ہوے اپنے پچھلے تمام جرائم کو دوسروں کے کھاتے میں ڈالتے ہوے کہا کہ ایجنسیوں نے کبھی وزیراعظم کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی۔ میاں نواز شریف کیا استین کا سانپ ہے کہ نہیں؟ اب تمام حقائق اپ لوگوں کے سامنے فیصلہ عوام خود کریں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں