تھوڑا سچ اور سہی، تحریر: اے آر بابر

اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں جھکایا نہیں جا سکتا ،نواز شریف
موصوف بالکل سچ فرما رہے ہیں ،کیوں کہ جھکنے کے لئیے کم ازکم کھڑا ہونا ضروری ہوتا ہے ، اور جو لیٹے ہوئے ہوں وہ زیادہ سے زیادہ کروٹ ہی بدل سکتے ہیں دل کے شدید مریض تو کروٹ بدلنے والا ایڈوینچر کرنے سے بھی کتراتے ہیں ،ہمارا مشورہ ہے کہ وہ عملی طور پر ایسا کرنے کے بجائے کشور کمار اور لتا منگیشکر کا صرف یہ خوبصورت دوگانا سنا کریں ، کروٹیں بدلتے رہے ساری رات ہم ، آپکی قسم آپکی قسم ، اور تصور میں چھوٹے بھائی کی گرفتاری کا منظر دھراتے ہوئے ساتھ گنگنایا بھی کریں ، چونکہ میوزک تھراپی سے بھی علاج ممکن ہے ، جس سے ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ ہونے والی مذید گرفتاریوں پہ ایسا اخباری بیان دینے سے پرہیز فرمائیں جو انہوں نے اپنے برادر خورد کی گرفتاری پہ دے کر اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے ، لوگوں کا کیا ہے ، جتنے منہ اتنی باتیں ، اب اگر عوام ایسا کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کی گرفتاری نون لیگی اعلیٰ قیادت کے لئیے اس لئیے اطمینان کا باعث ہے کہ اقتدار کے حصول کے لئیے، شہباز شریف سولو فلائیٹ پہ گامزن ہونے کو تیار بیٹھے تھے ،جو اڑان بھرنے سے پہلے ہی کریش ہو گئی ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بڑے میاں صاحب کا جُز بُز ہو کر مذکورہ بیان دینا ان کی اسٹنٹ زدہ جس قلبی کیفیت کا اظہار کرتا ہے، اس کی عکاسی یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ ، کبابِ سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سُو بدلتے ہیں ، جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں ، شوگر اور دل کے مریض کو ایسے دعوے کرنے سے پہلے ڈاکٹروں سے مشورہ لے لینا چاہئیے ، اگر ڈاکٹر بھی کرپٹ نہ ہوں تو

 عوام نکلے تو حکومت کو گھر جانا پڑے گا، زرداری

عوام بیچارے تو تب بھی نہیں نکلے تھے جب موصوف اپنے دور اقتدار میں اپنے بانی قائد کے جزباتی نعرے روٹی ، کپڑا اور مکان کو عملی جامہ پہنانے اور غریب عوام کو ان کے دیگر بنیادی حقوق فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے تھے ، اور انکی حکومت کا واحد کام جئے بھٹو کا نعرہ لگا کر سندھ کے ہاریوں اور شہریوں کا جزباتی استحصال کر کے دونوں ہاتھوں سے ذاتی تجوریاں بھرنا ہی رہ گیا تھا، شکر ہے کہ بلاول زرداری کے پاپا نے مریم صفدر کے پاپا کی طرح اپنے داغے ہوئے بیان میں عوام کے بجائے قوم کا لفظ استعمال نہیں کیا ،کیونکہ ایک تو وہ میاں صاحب کی نسبت زیادہ چست اور معاملہ فہم ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ ان سمیت کسی بھی حکمران نے اپنے دور حکمرانی میں عوام کو قوم بننے ہی نہیں دیا ، اور بکھرے ہوئے عوام کو مزید تقسیم در تقسیم کر کے اپنے اقتدار کی بنیادوں کو ہی مظبوط تر کیا گیا ہے، لہٰذا کم از کم ،ان کی اس حق گوئی کا سراہے جانا تو بنتا ہے ، لیکن موجودہ حکومت سے پہلے کبھی سندھ اور کبھی وفاق میں ایک تسلسل کے ساتھ کئی دھائیوں سے حکومتیں بنانے والی ان کی اپنی پارٹی نے ایسی کونسی عوامی خدمات سر انجام دے کر عوام کو خوش حال اور پاکستان کو بیماریوں سے پاک بنایا ہے کہ، غربت و افلاس ، جہالت اور بیماریوں سے نبرد آزما عوام الناس ایک صرف موصوف کی خواہش کی تعمیل کرنے نکل آئیں گے۔ نکلنے سے انکی مراد شاید گھروں سے نکلنا ہے ، اگر ایسا ہےتو عرض یہ ہے کہ عوام کرائے کے مکانات کو ذاتی گھر بنانے، دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی اور تن کو ڈھانپنے کے لئیے کپڑوں کے حصول کو ہی مقصد حیات بنائے انکے سسر کے زمانے سے ہی در بدر ہیں، اقتدار سے انکی دوری جو امید کامل ہے کہ مستقل ہے ، شاید اس کا پیشگی تصور ہی ایسے مضاحکہ خیز بیان داغے جانے کا محرک ٹھہرایا جا سکتا ہے ، ویسے تو موصوف خاصے زیرک اور دور اندیشی ہیں ، اپنے سُسر کی پارٹی کے سینئر ترین راہنماؤں کی موجودگی میں اپنی شریک حیات کو منوں مٹی کے سپرد کر کے پارٹی کے، یونہی نہیں ، خود شریک چیئرمین بن گئے تھے ، اور ” مردانہ وجاہت ” کے عظیم شاہکار اپنے برخوردار کو سربراہ بنا دیا تھا ، اس کے لئیے انہیں وصیت نامہ بھی دکھانا پڑا تھا ، ورنہ جمہوری دور میں ایسا کیسے ہو سکتا تھا ، اب بھی جمہوریت ہے، اگر تب بھی عوام نہیں نکلے تھے تو اب بھی نہیں نکلیں گے ، اور اگر عوام سے انکی مراد پیپلز پارٹی کے ووٹرز اور سپورٹرز ہیں تو وہ بیچارے ابھی تک سکتے میں ہیں کہ انکی اپنی ہی حکومت بی بی کے قاتلوں کو پکڑ کر دنیا کے سامنے کیوں نہ لا سکی تھی ، ان سے اس کیفیت سے ہی نہیں نکلا جا رہا یہ پتہ نہیں کونسے نکلنے کی بات کر رہے ہیں۔

کرونا کی وبا کے دوران بھی سیاسی انتقام جاری ہے ، بلاول بھٹو زرداری

گویا حکومت کے خلاف کرونا کی وبا کے دوران تحریک چلانے سے ان کے نزدیک شاید کرونا وائرس گھبرا کر وفات پا جائے گا ، یا تحریک چلانے والوں کو اندر کھاتے ویکسین مل چکی ہے جو یوں بے خطر میدان سیاست میں جلسے جلوس وغیرہ کرنے کے انتظام و انصرام کئیے جا رہے ہیں ،اگر ایسا ہی ہے تو اپوزیشن صرف اتنا ہی اعلان کر دے کہ انکے جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے والوں کو، اس عالمی وبا کے خلاف موثر کام کرنے والی دوا مفت مہیا کی جائے گی، امید ہے کہ حکومت کی حلیف جماعتیں اور بالخصوص پی ٹی آئی کے ووٹرز بھی انکے جلسے جلوسوں میں شرکت فرما کر رونق بڑھائیں گے ، وگرنہ اور کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ، ایک طرف خود ہی فرماتے ہیں کہ فوج ہی اس ملک کی کرتا دھرتا، اور عمران خان سلیکٹڈ ہے ، گویا بلواسطہ فوج کے خلاف تحریک چلانا چاہ رہے ہیں یا مقصود صرف عمران خان کی جگہ خود مسندِ اقتدار پہ براجمان ہونا ہے ، عالمی منظر نامہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے ،نئے حلیف اور نئے حریف بلاکوں کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں ،ایسے حالات میں اندرونی طور پر ایسی حرکتیں کر کے بھارت کو کوئی ایڈوینچر کرنے کا موقع فراہم کرنا ، کیا حب الوطنی اور عوام کی خیر خواہی کا باعث ہو گا ، زرا نہیں پورا سوچئیے
______________________________________
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں