کچھ لوگ کھانا کھانے کے لئے زندہ رہتے ہیں، اور کچھ لوگ صرف اتنا سا کھاتے ہیں، جس سے زندہ رہیں مگر گوجرانوالہ کے بٹ صاحبان کا معاملہ الگ ہے۔ یہ کھانا کھانے اور کھلانے کے لئے زندہ رہتے ہیں۔ ان بٹ صاحبان کو نان اتنے پسند ہیں کہ ان کا چہرہ بھی اب نان کی طرح سفید نظر آتا ہے، اور کچھ کا لال نان کی طرح۔ ایسے ہی ایک بٹ صاحب جن کا پیٹ ان کے جسم سے پانچ سے چھ فٹ کے فاصلے سے پہلے شروع ہو جاتا ہے، ان کے ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ اب ان کے ہونٹ بھی موٹاپے کا شکار ہو چکے ہیں۔ گالوں پر گوشت کے پہاڑ چڑھنے کی وجہ سے آنکھیں برائے نام سی اب نظر آتی ہیں۔
ان کی دعوت پر ہم ان کے شہر گئے۔ اور ان کی فرمائش پر ان کی باتوں کو قلم بند کیا۔ مجھے اگلا نان پکڑاتے ہوئے بولے، ویسے تو تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے: کہ پیار اور نان تازے تازے ہی اچھے لگتے ہیں۔ مزید فرمایا: لو اگلا نان کھاؤ۔ میں نے کہا، نہیں شکریہ میں پہلے ہی چار نان کھا چکا ہوں۔ تو بٹ صاحب بولے: ویسے کھائے تو تم نے سات ہیں پر یہاں تھوڑی کوئی گن رہا ہے۔ میں تھوڑا سا شرمندہ ہوا۔ تو میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر فرمایا: ہمیشہ زندگی میں ان لوگوں کو نظروں کے سامنے رکھو جو آپ کے چہرے کے تاثرات سے آپ کی بھوک کا حال جان لیں۔ ساتھ ہی ایک بڑا ڈکار آیا تو پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بولے کھانے کا ٹائم اور پیٹ کب نکل جاتا ہے، پتا ہی نہیں چلتا۔ ساتھ فرمایا: کچھ چیزیں ہمارے دل کے بہت قریب ہوتی ہیں، جیسے کہ جگر، پسلیاں اور پھیپھڑے پر ہمارے دلوں میں جو مقام پیٹ نے پایا ہے وہ بات کسی اور میں کہاں؟
ملائی سے بھر پور لسی کے گلاس میں سے گھونٹ لیتے ہوئے کہتے: جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے. اس لئے ہم سوتے بھی لیٹ ہیں اور اٹھتے بھی لیٹ ہیں. بستر سے بھی اور دسترخوان سے بھی۔ کہتے ہیں؛ ہم بٹ صاحبان قرض کسی کا بھی نہیں رکھتے، ایک کھاتے ہیں دوکھلا دیتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے یہ دنیا مکافات عمل ہے۔
ہرعمل جو کیا اس کا حساب دینا ہوگا۔ کسی کو دی گئی دعوت اس کو تب تک چین سے بیٹھنے نہیں دے گی، جب تک وہ دوبارہ دعوت نہ دے۔ اس طرح گوجرانولہ میں دعوتوں کا ایک لامحدود سلسلہ چل نکلا ہے۔
کہتے ہیں اکثر بٹ صاحبان صرف اس وجہ سے مہذب نظر نہیں آتے۔ کیونکہ انہیں اچھی طرح پتا ہے کہ مہذب طریقے سے کھانا کھانے سے انسان اکثر بھوکا رہ جاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں، لوگ روٹی کے بعد چائے یا بوتل لیتے ہیں ہم روٹی کے بعد پھر روٹی لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے، گوجرانوالہ میں تحفے میں پرفیوم کی بجائے پھکی دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی مسکرا کر بتایا، کہ جب چھوٹے ہوتے تھے، تو گھر سے دوائی کے پیسے لے کر نکلتے تھے اور انہیں کے چڑے کھا لیتے تھے۔ شاید ان چڑوں کی بددعا کے نتیجے میں اب ہمارا پیٹ انکے گھونسلے جیسا دکھتا ہے۔
مزید بٹوں کی ثقافت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا؛ ہر عید کے تہوار پر ہماری بیگمات ہمارے نئے کُرتے کی تعریف نہیں کرتیں بلکہ بیگمات کہہ رہی ہوتی ہیں: آج رج کے تسی روٹی کھادی، کینے سونے لگ رہے ہو ماشاء اللہ۔ کہتے ہیں یہاں پر پنچایت اور مردے کو دفنانے کے فیصلے بعد میں ہوتے ہیں، روٹی میں کیا ہوگا اس کا فیصلہ پہلے ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی گہری سوچ میں ڈوب گئے اور بولے یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ ہم لوگوں کو سائنسدانوں کے نام تو یاد ہیں، یہ بھی یاد ہے کون سی چیز کس نے ایجاد کی، مگر کیا کبھی کسی نے سوچا؟ سب سے پہلے چنے کی چاٹ کس نے ایجاد کی ؟ دہی بھلے بنانے والا کتنا عظیم انسان تھا، گول گپے بنانے والے نے دنیا پہ کتنا بڑا احسان کیا، آلو بخارے کی چٹنی کتنی اہم ایجاد ہے، سموسے انسانیت پر کتنا بڑا کرم ہے؟ ایسے گمنام انسانوں کو ہم بٹ برادری کا سیلوٹ ہے۔ آخر میں مجھے یہ کہہ کر انہوں نے اجازت لے لی کہ سندھو صاحب کھاتے رہا کریں کیا پتا کل منہ میں دانت ہو یا نہ ہوں۔