اٹھارہ دن پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ملکِ عزیز میں کچھ وقت گزار کے واپس کینیڈا آ گیا، ویسے تو ساری حیات اک واھمے کے سواکچھ بھی نہیں،لیکن انسانی دماغ اس میں بھی رنگ رنگ کی امیدیں اور وابستگیاں ڈھونڈ لیتا ہے،اور دِلبستگیاں اس کے ِسوا ھیں۔دلبستگیاں تو خیر کب کی غمِ روزگار کی نظر ھو گئیں۔وابستگیںوں کے وھم بھی عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ختم ھوتے جا رھے ھیں۔ہر بیتا لمحہ اور ہر گزرا پل، بالآخر اک یاد بن جاتا ھے۔مُڑ کے واپس دیکھا تو محسوس ہوا کہ پاکستان میں
یار لوگوں کے آج بھی من پسند “مشغلے” مذہب اور سیاست ہی ھیں۔مذھب اور سیاست کی اھمیت سے توکوئی دیوانہ ھی انکار کرسکتا ھے, لیکن ان دو موضوعات پہ فرزانوں کی دیوانہ وار پرجوش گفتگو سن کے دل کبیدۂِ خاطر ھو گیا۔بڑی شدٌت سے محسوس ھوا کہ ھم آج بھی آئیمہ اربعہ کی بحث سے باہر نھیں نکل سکے،حدٌِ کلام بقولِ الطاف حسین حالی۔
“نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رُتبہ نبی سے بڑھائیں”۔
تک جا پہنچتا ھے۔
رہ گئ سیاست ،تو یہ ھمارا محبوب اور مرغوب مشغلہ ھے۔ھر نیا طلوع ھوتا دن، لوگوںکو سیاسیات کے نئے عنوان عطا کر جاتا ھے،اور لوگ اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ شخصیات کی حمایت اور مخالفت میں اپنےجمع شدہ زخیرۂ الفاظ کے ساتھ کمر کس کے میدان میں اُتر آتے ھیں۔ان کے مراحلِ شوق طے ہونے میں نھیں آتے۔ھر دوسرا دن اک نیا طُور نئی برقِ تجلّی۔جھگڑا زیادہ اور تعلقِ باھمی ناپید ۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی دو پڑھے لکھے اشخاص شائستہ طریقے سے کسی بھی موضوع پہ شریفانہ اختلاف کر سکتے ہیں،کیوں کہ یہ انسانوں کا بنیادی حق ہے۔لیکن ملک عزیز کے باسیوں کے رنگ،ڈھنگ اور آہنگ بھی نرِالے دیکھے۔اختلاف اور وہ بھی قبر کی دیواروں تک!ساری اخلاقی تعلیمات چوکڑیاں بھرتی نظر آئی۔
حالانکہ رائج سیاست،خود سے وابستہ لوگوں کی ایمانیات کو کچھ اور عیاں کر گئ ھے۔
عامَتُہ النّاس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے لکھاریوں ٫عالموں ٫اور مُدبّرین کو بے نقاب کر گئی ھے۔
پر پھر وہی وہم کے لوگ سمجھ چکے ہوں گے۔
وھی طاعون زدہ دو پارٹیوں کی سیاست اور اب نیا “انصاف” کا شورو غوغا۔
مجھے نھیں معلوم کہاں سے مفکّر کو مٹی کا نم محسوس ھو گیا تھا۔ ھمارے تو نظریات بھی عقائد کے ساتھ جامد ھو چکے ہیں۔
جبکہ معاملاتِ مذھب اور کاروبارِ سیاست رواداری کے بغیر ممکن نہیں۔
یار لوگ رواداری کے راستے پر گامزن ہو چکے ھوں گے،یہ بھی وھم نکلا۔
مذھب کے جو لوگ علمبردار ھیں اور جو، اپنے تئیں خود کو سیاست کا ناخدا سمجھتے ھیں۔اُن کا موازنہ جب جدید دنیا کے نابغوں سے کریں تو نتیجہ صرف خفگی اور جذباتی اُڈھیر بن نکلتا ھے۔
اشعار میں مدّعا بیان کریں تو جامعیّت کے ساتھ بات ختم ھو کر، تحریر اختتام کو پہنچ جائے گی۔
“کیسا یہ انقلابِ گلستاں ھے دوستو
جو پھول ھے،سوچاک،گریباں ھے دوستو
اہلِ ہوس میں گرم ھے پھر جنگِ اقتدار
شعلوں کی زد میں سارا گلستاں ھے دوستو
زنجیرِ زلفِ یار کہ ھم دامِ شیخِ شہر
انسان کا شکار ھی انساں ھے دوستو”
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔