جامع مسجد دارالسلام دیر کوہستان کی سب سے آخری گاوں تھل میں واقع ہے، اس مسجد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دیر کوہستان کی سب سے مشہور اور قدیم مسجد ہے،اس مسجد کے دو حصے ہیں، بالائی منزل جستی چادروں سے تعمیر کی گئی ہے۔جب کہ زیریں حصہ 1865ء میں تعمیر کیاگیا ہے ـ اس مسجد میں ہونے والے آتشزدگی کی وجہ سے اس کا ایک حصہ متاثر ہوا ۔ جس کو مقامی لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا ۔ یاد رہے اس وقت لکڑی کاٹنے کی مشین آری وغیرہ نہیں تھے ۔
جامع مسجد تھل، وادی کمراٹ کی ڈیڑھ سو سالہ قدیم جامع مسجد ہے۔ اِس مسجد کی تعمیر پہلی مرتبہ 1865ء میں کی گئی جبکہ 1930ء میں آتشزدگی کی وجہ سے اس مسجد کا کچھ حصہ جل کر راکھ ہوگیا تھا۔ مقامی افراد نے اس کی دوبارہ تعمیر کی تاہم اس کا اکثر حصہ پرانا ہی ہے۔
مقامی لوگو ں نے اسے کلہاڑیوں کی مدد سے تعمیر کیا اور کلہاڑیوں سے ہی لکڑیوں پہ ایسے نقش و نگار بنائے کہ آج کے مشینی دور کا انسان حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دریائے پنجکوڑہ کے کنارے واقع قدیم داردیک تہذیب و تمدن کے اس شاندار نمونے کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں۔
مسجد کی دیواریں اور چھت بھی اخروٹ کی لکڑی سے تعمیر کی گئی ہیں اور ان پر بھی نقش و نگاری کنندہ ہے۔تھل کی تاریخی مسجد دارالسلام جو کہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے
مسجد کے اندر ایک خوبصورت انگیٹھی بنائی گئی ہے جو سردیوں میں نمازیوں کو حرارت مہیا کرتی ہے۔ وادی کمراٹ میں تفریح کی غرض سے آنے والے سیاح اس مسجد کے حصار میں کھو جاتے ہیں۔
اِس مسجد کی منفرد حیثیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دیودار کی بنی ہوئی 45 فٹ لمبی اور 1.5×1.5 فٹ چوڑی شہتیر بغیر کسی جوڑ کر لگائی گئی ہے۔ اس کے شہتیروں کو 2×2 فٹ چوڑے اور 8 فٹ بلند دیودار کے ستونوں سے سہارا دیا گیا ہے۔ان ستونوں پر بہترین نقش و نگار بنائے گئے ہیں جو کہ علاقائی فن تعمیر اور نقش و نگاری کا شاہکار ہیں۔ مسجد کی بالائی منزل جستی چادروں سے 1999ء میں تعمیر کی گئی ہے۔