مرد کو درد نہیں ہوتا! تحریر: ڈاکٹر انعم پری

“رب نے بنا دی جوڑی ” یہ جملہ زندگیوں میں خوبصورتی کا نام ہے !

کبھی ہم نے سوچا ہے كے رب نے ہمیں جوڑیوں میں ہی کیوں پیدا کیا ؟ ہم اکیلے بھی تو ہر کام کر سکتے ہیں- پِھر اللہ نے ذمہ داریاں کیوں بانٹ دیں ؟
کیا ہوتی ہے جوڑی آخر ؟ ” ویو آر پارٹنرز ” انگریزی کا یہ جملہ میں نے ہزار بار سنا لیکن کیا واقعی میں ہی ہم اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں؟ اللہ تعالی نے تو سب ذمہ داریاں برابر بانٹیں ہیں پِھر ہم لڑکوں پر ہی زیادہ بوجھ کیوں ڈال دیتے ہیں ؟
عجیب لگ رہا ہے نا كہ اک لڑکی ہو کر میں یہ کیا بات کر رہی ہوں ؟
میں اک استاد ہوں -اسکول میں ننھے منھے ذہنوں کی نشو نما کی ذمہ داری ہے مجھ پر . . . آج بڑے زور و شور سے سوچ کا پنچھی میرے ارد گرد پنکھ مار رہا ہے – وہ کہتا ہے كے ” لڑکے روتے نہیں ہیں ، یا یہ کہنا چاہیے کہ لڑکے رلاتے نہیں ہیں ؟ کیاصحیح ہے؟ میں اپنے ننھے سے سات سال كے بیٹے روحان کو کیا سکھاؤں کیا بتاؤں؟ شاید یہ سوچ کبھی میرے ذہن میں نہ آتی اگر وہ سوال نہ کرتا – جانتے ہیں نہ آپ كے آج کل كے بچے اللہ كے کرم سے بہت ذہین ہیں اور یہ اکسویں صدی كے ننھے پھول ہر بات میں لاجک ( وجہ ) کو تلاش کرتے ہیں-
کل ہمارے اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ تھی- میں جب بہت تھکی ہوئی گھر آئی تو 5 بج چکے تھے – لاؤنج میں روحان اکیلا بیٹھا تھا- اسکی دادو شاید کچن میں اسکے لیے کچھ بنا رہی تھیں – میرے آتے ہی اس نے مجھ سے سوال کیا ماما لڑکے روتے نہیں ہیں یا لڑکے رلاتے نہیں ہیں؟ صحیح بات کیا ہے ماما ؟ میں یہ عجیب سی بات سن کر حیران تھی کہ اتنے میں ہی روحان نے مجھے یو ٹیوب پہ ایک ایڈ دکھائی- کہنے لگا کہ ماما میں کارٹون دیکھ رہا تھا، یہ ایڈ آگئی ،آپ بھی دیکھیں – اس کمرشل نے تو مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا – اس میں مشہور ترین اداکارہ مادھوری ڈکشت جی پیغام کو عوام تک پہنچا رہی تھی – لکھنے والے نے بہت ہی خوبصورتی سے اِس کمرشل کو لکھا تھا کہ ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے ، پِھر کسی اسکول میں پڑھتا ہے، کبھی اس ننھے بچے کا اسکول کا پہلا دن ہوتا ہے تو کبھی وہ فٹ بال کا ٹورنامنٹ جیت جاتا ہے- ہر ہر سین میں اسے اسکے استاد ، اسکے والدین ، اسکی ماما یا پاپا ، گھر كے بڑے سب بس یہی سکھاتے ہیں كے تم رو نہیں سکتے کیونکہ لڑکے روتے نہیں ہیں اور آخری سین میں وہی لڑکا بڑا ہو کر اپنی بِیوِی سے بد تمیزی سے پیش آتا ہے- اپنے دِل میں دبے سارے غصے کو بیوی پرنکالتاہے اور مادھوری جی پیغام دیتی ہیں كے آخر ہم اپنے بچوں کو یہ کیوں نہیں سکھاتے كے لڑکے رلاتے نہیں ہیں ؟
روحان تو اپنی دادی كے فنگر چپس لاتے ہی وہ کھانے میں مصروف ہو گیا تھا اور وہ بھولا ذہن شاید ذرا دیر کو بھول گیا تھا كے اس نے کیا سوال کیا لیکن یہ سوال میرے ذہن میں تو جیسے کسی نے نقش کردیا تھا؟ میں تو بچوں کی ٹیچر ہوں نا؟ میں تو ماں باپ كے بعد انکی پرورش اور بہترین تربیت کی ذمہ دارہوں نا؟ میں نے ایسا کیوں نہیں سوچا کبھی ؟
آج کل ہر طرف ہم عجیب و جارحیت و ذیادتی كے واقعات سن رہے ہیں – اِس پڑھے لکھے زمانے میں ریپ کیسس ، طلاق کیسس ، فرینڈشپس ، بریک اپس، یہ سب کتنا زیادہ بڑھ گیا ہے -اس کا ذمہ دار کون ؟ صرف ماں باپ ؟ یا صرف ماں ؟ آخر کیوں ؟ ہم سب کیوں نہیں ؟ ہم شروع سے یہ دو باتیں نہ جانے ہزار بار اپنے بڑوں سے تو کبھی اپنے ارد گرد لوگوں سے سنتے رہتے ہیں كے مرد کو درد نہیں ہوتا ! لڑکے کبھی روتے نہیں ہیں، شاید اتنی بار یہ باتیں بھی ہمارے آگے دھرائی گئی ہیں كے ہم انہیں سچ مان بیٹھیں ہیں – ،مگر یہ ہر گز سچ نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے كے ہمارے لڑکوں میں ہمارے بچوں میں ڈپریشن ، فرسٹیشن ، ذہنی دباؤ ، اک موذی مرض کی طرح رچ بس گیا ہے – میں ایک عورت ہونے کی حیثیت سے یہ بالکل نہیں مانتی كے مرد کو درد نہیں ہوتا- ایسا بالکل نہیں ہے – وہ انسان ہے- اسے بھی رونے کا ، اپنے جذبات كے اظہار کا اتنا ہی حق ہے جتنا كے عورت کو –
اللہ تعالی نے تو ہم سب کو جوڑیوں میں پیدا کیا، اتنے خوبصورت رشتوں سے نوازا تو آخر ہم نے یہ سب کچھ خودی سے معاشرے میں کیوں بانٹ لیا-
جب کسی باپ کو اپنی بیٹی کی تکلیف پہ دکھ ہوتا ہے ، ایک بھائی کو اپنی بہن کی رخصتی پہ غمگین ہونے کا حق ہے تو اسی طرح جب وہ چھوٹا ہے تو اسے چوٹ لگنے پہ، کسی سے ہار جانے پہ، اپنے درد پہ رونے کی اِجازَت بھی ہے –
آنسو تو اللہ کا انمول تحفہ ہیں- ان کے بہہ جانے سے دِل کا سارا گرد بہہ جاتا ہے- حسد ، جلن ، غصہ ہر ہر وہ جذبہ جو گناہ کی طرف مائل کرے جو انسان کو حیوان بننے پہ مجبور کر دے وہ ان میں بہہ کر ٹھنڈا ہو جاتا ہے -انکی قدر کریں -اللہ نے واقعی ہی مرد کا دِل بڑا اور مضبوط بنایا ہے – اسے ہمارا نگہبان بنایا ہے لیکن ہمیں بھی اسی كے لیے راحت کا باعث بننے کا حکم ہے – اپنے بچوں کی پرورش میں ہم سب کو بیٹوں کی تربیت پہ اب زیادہ دھیان دینا ہے- ہم سب بیٹی کی پرورش کی تو بہت دھائیاں دیتے ہیں یہاں تک كے ان کے لیے کتابیں اور دیوان لکھ دیتے ہیں لیکن ہمارے بیٹوں کی پرورش کون کرے گا یہ سوچنے سے ہم اب تک قاصر ہیں-
آپ اپنے بچوں کو خود جانچیں، پرکھیں اور ان کے مسائل سنیں- اگر آپ انہیں دنیا میں لانے کا وسیلہ بنیں ہیں تو انکی زندگی میں صرف بڑی بڑی ڈگریاں دلانا ہی آپکا فرض نہیں ہے بلکہ ان کے جذبات کو سننا ، ان کو صحیح راہ دکھانا اور ان کے اندر ڈپریشن ، غصہ ، حسد ، جلن اور بدلے جیسی بیماریوں کو نہ پنپنے دینا بھی آپکی ہی ذمہ داری ہے-
آج میں نے جو سبق اپنے بچے كے ننھے ذہن سے سیکھا ہے میں سمجھتی ہوں كے ہم سب اِس بات کو تسلیم کریں کے مرد کو بھی درد ہوتا ہے- اسکی پریشانی بانٹنا بھی ضروری ہے- اگر وہ آپکے لیے گھنا سایہ ہے تو آپکا فرض ہے كے اس ٹھنڈی چھاؤں میں کبھی آگ نہ لگنے دیں- اس سینے کو جس پہ سَر رکھ کر آپ سکون محسوس کرتی ہیں ہر اس گناہ سے پاک رکھیں جس سے ہمارے معاشرے میں گندگی پھیلے، جس سے ہمارے لیے سَر اٹھا کر جینا مشکل ہو جائے –
مجھے بھی اب ہوش آ گیا تھا- میں فوراً اٹھی تھی اپنے ننھے روحان کو بتانے کے لیے كے وہ رو سکتا ہے ، اپنا غم بانٹ سکتا ہے – ہم سے، اپنے رب سے ، اور یہ آنسو بہانہ کمزوری نہیں مومن کی طاقت ہیں- یہ رب کی وہ رحمت ہے جس سے انسان پاک صاف ہو جاتا ہے ہر اس گناہ سے جسے نہیں کرنا چاھیے- پِھر بس اسکی زندگی شکر کا سجدہ کرتی گزرے گی کیونکہ میرا بیٹا یہ یاد رکھے گا كے وہ وہ مرد ہے جو کسی کو کبھی رلاتا نہیں ہے .
ہاں میں جانتی ہوں اتنی سی عمر میں اسے یہ بات سمجھ نہیں آئے گی شاید لیکن جب ہمارے بڑوں كے روز کہنے سے ہمیں یہ جملہ یادہو گیا تھا كے لڑکے روتے نہیں ہیں ، مرد کو درد نہیں ہوتا، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے كے جب ہم مضبوط ارادے سے ان لفظوں کو بدلنا چاہیں گے تو یہ نہیں بدلیں گے – یہ جملے ہی نہیں سب کی سوچ بھی بَدَل جائے گی بس یاد رکھیں كے مرد کو درد ہوتا ہے اور وہ رلاتا نہیں ہے – میں تو آج سے پر عزم نہ صرف اپنے بیٹے کو بلکہ اپنی کلاس میں آنے والے ہر ہر بچے کو ہمیشہ سے سیکھاؤں گی تاکہ نہ صرف میری بیٹی اور اِس دنیا کی ہر لڑکی بلکہ ہمارے لڑکے بھی محفوظ رہیں اور اک روشن مستقبل كے ساتھ فخر سے سَر اٹھا کر زندگی جیئں- . میرا بس اک سوال ہے، کیا آپ میرا ساتھ دیں گے ؟ ؟ ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں