مسلمانوں کی غیرت، تحریر: ثناء آغا خان

کیا اب یہ روز ہوگا ؟کیا روز تماشہ بنے گی اس ملک کی غیرت ؟اس ملک پاکستان ‘اسلامی مملکت کے نام پر یہ جو ہجوم اکٹھا ہے کیوں خاموش ہے؟ فرقہ فرقہ کھیلتے انسانیت کا درس کیوں بھول بیٹھے ہیں ؟کیوں انتظار ہے کل اخبار کی سرخی میں ان کی بیٹی کا نام آئے؟ کوٹھے بازار بند کر کے دین کا ڈنکا بجا رہے ہیں۔کیوں یہ وحشی کتے چھوڑ دیے گئے ہیں سڑکوں پر شریفوں کے گھروں میں جھانکنے کے لیے ۔
یہاں ایک عام عزت دار شہری کی عزت محفوظ نہیں۔ نام بدل دو اس ملک کا۔ یہاں روز بنت حوا کو وحشت میں دبایا جاتا ہے۔عورت ہونا جرم بنایا جاتا ہے ۔انصاف کیلئے ایک کرب سے گزرنا پڑتا ہے ۔کس کس دکھ کو روئے ہم یہاں ہر دکھ نہا سور رہے ۔
کہاں ہے وہ سب دین کے علم بردار ؟لباس سے لے کر نماز تک کے فتوے لگانے والے اس مسئلے پر خاموش تماشائی کیوں بنے بیٹھے ہیں ؟
کیا اسلامی مملکت پاکستان میں زناکاری اور زیادتی اتنی آسان ہے؟ کیوں اس معاملے میں کوئی مذہبی تنظیم سامنے نہیں آئی؟کیا یہ صرف قانونی مسئلہ ہے ؟اس عجیب فلسفہ کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کبھی کسی عورت کا دوپٹہ سر سے سرکنے پر فتووں کی بھرمار ہو جاتی ہے اور کہیں عورتوں سے زیادتی کے روز سامنے آنے والے کیسز پر خاموشی شاید اس میں قصور ہم مسلمانوں کا بھی نہیں قصور اس صدی کا ہے جس کی پیشن گوئی آج سے بہت پہلے ہوچکی تھی۔
یہ خاموشی’ یہ بے حسی کسی اور مسلہ کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں ۔ہم ایک مسلمان ‘ایک اسلامی ملک اور سب سے بڑھ کر انسانیت کے ناطے اس قوم کی بیٹیوں کا تماشا نہ بننے دیا جائے ۔بے شک مسجدیں’ منبر ‘اور مصلیٰ الگ رکھیں ۔پر خدارا مسلم معاشرے کی علمبرداری کرتے ہوئے اس معاملے میں اہم تنظیم سازی کی ضرورت ہے کیونکہ عورت غیرت کی نشانی ہے اور اپنی غیرت کی حفاظت تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور جلد سے جلد کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے کہ زنانہ اور زیادتی پر قابو پایا جا سکے۔اور گناہ گار کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں