الادب شجر والعلم ثمر فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔’’ادب ایک درخت ہے اور علم اسکا پھل۔اگر درخت ہی نہ ہوتو پھل کیسے لگے گا؟‘‘
سورج بننا ہو تو پہلے خود کو روشن کریں”
علم کاحاصل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا ایک “عبادت” سے کم نہیں، اسی لیے ایک ٹیچر کا معاشرہ میں بہت بلند مقام ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ اگر یوں کہا جائے تو زیادتی نہ ہوگی کہ تدریس کے عمل سے آخرت کی زندگی کی کامیابی کی ضمانت بھی ہوگی۔
استاد کا کام تحقیق اور مطالعہ سے بچوں میں نصاب کے علاوہ بہت ساری مہارتیں پیدا کرنا ہے۔ وہ اساتذہ جو صرف طے شدہ نصاب ہی پڑھاتے ہیں یا سطر در سطر نصاب پر ہی انحصار کرتے ہیں وہ بچوں میں مقبولیت حاصل نہیں کرتے۔ طالبات ان کے اوقات تدریس میں بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ بچوں کو اپنے تدریسی عمل میں شامل کر کے ان کی دلچسپی بڑھا کر ان میں تعلیم کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس معزز پیشہ میں اساتذہ کی ایمانداری‘ سوچ‘ تدریس کے نئے اور دلچسپ انداز، وقت کی پابندی بچوں میں علم کی خاطر جذبہ پیدا کرتی ہے۔ استاد کی نظر بچوں کے نمبروں کے علاوہ ان کی شخصیت پر ہونی چاہیے۔ صرف سوالوںکے جوابات یاد کر لینا‘ خالی جگہ‘ طوطے کی طرح تمام نصاب کو ہضم کر لینے سے تعلیم کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اس حق کو ادا کرنے کے لئے حق گوئی اور حقائق کی تعلیم اور طالبات کی تربیت بہت ضروری ہے ورنہ وہ پڑھ لکھ کر ایک نئی مصیبت کھڑی کر سکتی ہیں جس سے والدین کے لئے باعث شرمندگی بن سکتی ہیں۔ صرف مقررہ نصاب کو پڑھانا کافی نہیں بلکہ اخلاقیات کا نمونہ بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ اس لئے ایسے بدلتے معاشرے میں اساتذہ کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ا ن کی پوری توجہ کے بغیر طالب علم کی شخصیت کی مکمل نشوونما نہیں ہو سکتی۔ تعلیم ہی وہ وسیلہ ہے جو انسان کو شرف آدمیت بخشتا ہے۔ کردار کے بغیر علم صرف دماغ کا تعیش ہے اور دل کا نفاق ہے۔ اگر اخلاق اور عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہوں تو علم کا درخت بے ثمر اور بے فیض ہے
امیر المومنین حضرت سیدنا علی مولود کعبہ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا!’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے اُستادکا درجہ دیتاہو ں۔ایک دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں کہ’’عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘امام قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ:امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کیلئے دعا نہ مانگی ہو۔ہارون الرشید :ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کیلئے کھڑا ہوجاتا۔درباریوں نے کہا کہ اس سلطنت کا رْعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے۔ایک دفعہ ہارون الرشید نے ایک نابینا عالم کی دعوت کی اور خود ان کے ہاتھ دھلانے لگا۔اس دوران میں عالم صاحب سے پوچھا۔آپ کو معلوم ہے کہ کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے۔عالم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر ہارون الرشید نے جواب دیا کہ میں نے یہ خدمت خود انجام دی ہے۔اس پر عالم دین نے کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا۔بلکہ جواب دیا کہ ہاں آپ نے علم کی عزت کیلئے ایسا کیا ہے۔اس نے جواب دیا بے شک یہی بات ہے۔ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کے لئے امام اصمعی کے سپرد کر دیا تھا ایک دن ہارون اتفاقاً انکے پاس جا پہنچا۔دیکھا کہ اصمعی اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔ہارون الرشید نے برہمی سے کہا۔میں نے تواسے آپکے پاس اسلئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے۔آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے۔انسان کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اور فرض سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم جو کوشش کرتے ہیں اسے تعلیم کہتے ہیں یہ تعلیم روحانی ، ذہنی اور جسمانی ہر طرح کی ہوتی ہے اور اس طرح ہم اشرف المخلوقات کے درجے تک پہنچتے ہیں ۔
معاشرتی زندگی کے جن شعبوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ان میں حصول علم نہایت نمایاں ہے۔ کیوں کہ تعلیم انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اْسے معاشرے کا ایک قابل قدر عنصر بنانے میں مدد دیتی ہے، اور علم کی راہ پر منزلوں کا حصول ’’استاد‘‘ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ استاد ہی ہے جس نے ایک فرد کی تربیت کی اور اس کی ذہنی نشوونما کا فریضہ سرانجام دینا ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ استاد کو معاشرہ میں اس کا جائز مقام دیا جائے۔ معاشرتی خدمات کے عوض معلم کا حق بنتا ہے کہ اسے سوسائٹی میں نہ صرف اعلیٰ مقام دیا جائے بلکہ اس کے ادب و احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھاجائے۔ لیکن۔۔۔! یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ ہر مذہب اور معاشرے میں استاد کو ملنے والی اہمیت کیا اس بات کی متقاضی نہیں کہ معلم خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرے؟
امام ابو حنیفہؓ سے ان کے عزیز شاگرد امام ابو یوسف نے پوچھا استاد کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے‘‘۔صرف اس فرمان کو سامنے رکھ کر اگر آج کے اساتذہ کرام کی اکثریت کو پرکھ لیا جائے تو ہمیں مادیت پرستی کا غلبہ واضح نظر آئے گا۔ بلاشبہ دور جدید میں مادیت پرستی ہر معاشرے اور شعبہ میں گھر کر چکی ہے، لیکن کچھ شعبہ اور ان کے ذمہ داران کے لئے مادہ پرستی جیسی اصطلاح کبھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔آج ایک پولیس افیسر کے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ افراد پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔لوگ پولیس والے ،مجسٹریٹ،جج اور دیگر افسران کے برابر بیٹھنا اْس کی بے ادبی تصور کرتے ہیں۔لیکن استاد جس کی محنت ،کوشش اور شفقت سے یہ افراد ان بالا عہدوں پر فائز ہیں اْن کی قدر معاشرہ کرنے سے قاصر ہے۔
حکومت اساتذہ کو ’’سر‘‘ کا خطاب دینا چاہتی ہے ،سلام ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے۔مگر افراد کے دل میں حرمت اساتذہ ناپائید ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات
منیرؔ شکوہ آبادی