تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 2 )، تحریر: اے آر بابر

ہر یونین کونسل سے دس وفادار کارکن حفاظت کے لئیے تیار کئے جائیں گے، مریم نواز

بہت اچھا فیصلہ کیا گیا ہے ، کیونکہ جب اپنے سگے بھائی اس مقصد کے لئیے آگے نہ بڑھیں گے تو پھر عوام کے بیٹوں کو ہی پکارنا پڑے گا ۔ ویسے بھی جن کو اپنی مرحومہ والدہ کو قبر میں اتارنے کی توفیق نہ ہوئی ، ان سے مذید ایسی کوئی جذباتی توقع وابستہ کرنا کار فضول ہے ۔ ان بیچاروں کو تو باپ دادا کی کمائی ہوئی دولت کا حساب کتاب رکھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہو گی ، وہ کہاں آنے والے ہیں ، ان کا اصل وطن تو انگلینڈ ہے جہاں وہ بزنس کر کے وہاں کی معیشت کو اپنے طور پر مستحکم کرنے میں مصروف ہیں ۔ پاکستان میں ان کے لئیے رکھا ہی کیا ہے ، سوائے بالآخر جیل جانے کے ، سو وہ کیوں آئیں گے ۔ جن کے گھر دانے ان کے کملے بھی سیانے ، اور دانے تو ان کے گھر اتنے ہیں کہ اگر وہ ہمت کرلیں تو صرف ان کی کمائی سے ہی شاید پاکستان کا قرضہ اتر جائے ، مگر وہ ایسا کیوں کریں گے ، اتنی محنت کی کمائی کوئی یوں ہی تو نہیں دان کرتا ، بہت بڑا ظرف چاہئیے ، اور جہاں حالت یہ ہو کہ ،حقیقی بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی ورکروں کے بیٹوں اور بھائیوں کو اپنی حفاظت کے لئیے مامور کرنا پڑ جائے ، وہاں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ، اناللہ وانا الیہ راجعون

عوام سڑکوں پر نکل کر حکومت سے جان چھڑائیں ،پیپلز پارٹی

عوام تو روزانہ سڑکوں پہ نکلتے ہیں ، روٹی ، کپڑا اور مکان کے حصول کے چکر میں ، اور جب سے یہ نعرہ اس پارٹی کے مرحوم قائد نے اپنے ورکروں کو عنائیت کیا تھا ، تب سے تمام ورکر اس کے چکر میں گھن چکر بن چکے ہیں ، ایک بڑی تعداد تو چکراتے چکراتے ، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا کے مصداق ، منظر عام سے غائب ہو کر اپنے ہی ووٹ بینک کے ڈاؤن فال کا ریکارڈ بنا چکی ہے ، اندرون سندھ بھی اب لوگ خاصے سمجھدار ہو چکے ہیں اور ایسے مزید چکروں میں آنے والے نہیں ہیں ، بہرحال رائج جمہوریت میں ایسے بہلاوے اور اپیلیں بعید از قیاس نہیں ہوتیں ، یہ الگ بات ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے ، کسی پہ اپنی مرضی ٹھونسی تو نہیں جا سکتی ۔ایک بات البتہ اظہر من الشمس ہے کہ فی الحال حکومت پارٹی کے کرپٹ ترین عناصر کو چھوڑنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہی ، کیونکہ ابھی تک کوئی این آر او نہیں مل رہا ، لہٰذا عوام سے اپیل کرنی تو بنتی ہے ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

 عمران خان جب جائے گا، واپس نہیں آئے گا ، خواجہ آصف

سبحان اللّٰہ ، کیا مشروط بیانیہ ہے ، گویا نہ گیا تو یونہی براجمان رہے گا ۔عمران خان کو وزیراعظم کی شیروانی کا بٹن تک بھی نہ دینے کے متکبرانہ بیان دینے والے کی، ائیر پورٹ پر عوامی چھترول سے ایک بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ ، تکبر خالق کو پسند ہے نہ مخلوق کو ، پیٹ پھاڑ کر زرداری سے عوام کے پیسے نکلوانے کے دعوے دار اسی زرداری کے در کے فقیر بنے ہوئے بھی دیکھے گئے ، لاڑکانہ ، لاہور ، پشاور اور نہ جانے کتنے شہروں کی سڑکوں پہ زرداری کو گھسیٹنے والا آج خود عبرت کا نشان بنا ایک ملزم کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا منی لانڈرنگ کے کیس کو بھگت رہا ہے ، بے نظیر بھٹو مرحومہ کی سربراہی کے خلاف فتوے داغنے والے آج مریم صفدر اعوان کی سربراہی پہ صمُ بکمُ کی تصویر بنے اپنا ہی تھوکا چاٹ رہے ہیں ، لہٰذا انسان کو اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے الفاظ ادا کرنے چاہئیے۔ خواجہ آصف کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ عوام کو چاہئیے کہ ہر رکاوٹ دور کر کے آنے والے جلسے میں شرکت کرے ۔ اب خواجہ صاحب کو یہ بات کون سمجھائے کہ عوام ہر بات پہ بعض اوقات من و عن عمل نہیں بھی کرتے ، اب کسے معلوم تھا کہ چند ماہ قبل خواجہ آصف ڈائس پہ آئے تو تقریر ہی کرنے تھے، اور عوام سن بھی رہے تھے، مگر عوام میں سے ہی ایک شخص نے بھرے جلسے میں ان کے منہ پہ کالی سیاہی پھینک کر ساری تقریر اور شخصیت کا ستیاناس کر دیا تھا ، کسی کو کوئی بات اچھی نہیں بھی لگتی ۔ لہٰذا ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہئیے ۔ عمران خان تو گیا نہیں ، یہیں ہے،مگر ، ان کے قائد میاں نواز شریف تو کب کے جا چکے ، اور یار لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اب وہ اپنی مرضی سے کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے ۔ میرے ایک بہت ہی پیارے اور محب وطن دوست حسن نصیر سندھو بتا رہے تھے کہ رات انہوں نے خواب میں میاں نواز شریف کو یہ گاتے ہوئے دیکھا ، شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو، میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو ۔ اب یہ کوئی صاحب علم ہی بتا سکتا ہے کہ حسن کے مہدی حسن مارکہ خواب کی تعبیر کیا ہے۔ غیب کا علم تو صرف اللّٰہ کریم کے ہی پاس ہے ، ہم تو بس ٹامک ٹوئیاں ہی مار سکتے ہیں ، خواجہ آصف کی طرح
___________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں