سارے چوروں اور سیاسی لاوارثوں کو جلسوں کے لئیے فری ہینڈ دیا جائے گا ، فیصل واوڈا
وفاقی وزیر نے اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں کئے گئے اس فیصلے سے عوام کو آگاہ تو ضرور کیا ہے مگر ، یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا، کہ اگر اپوزیشن والے چور ہی ہیں، تو کیا قانون اتنا بےبس اور مجبور ہو چکا ہے ، کہ چوروں کے ہاتھ قلم کرنے کے بجائے، ان کے ہاتھوں میں مائیک پکڑا ہوا دیکھ کر ان کی تقریروں کے مندرجات پہ غور و خوض کرتا رہے گا ، اور اپوزیشن والے اگر چور نہیں ہیں تو وہ عدالت میں وفاقی وزیر کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیوں نہیں کرتے ، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ دونوں اطراف ، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، کے مصداق عوام کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا کر وقت کو دھکا لگا رہے ہیں ۔ خالق نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی ، ایک طرف اقتدار کو انجوائے کر کے وقت گزارا جا رہا ہے ،اور دوسری طرف اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان ہونے کی خواہش اور کوشش میں وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے ، ایک بس غریب اور مفلوک الحال عوام کی اکثریت ہے ، جس کے لئے وقت ٹھہر سا گیا ہے ، گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ، تہتر سال ہو چکے ، بدبختی کے سائے ڈھلے نہ غم کی شام کا سویرا ہوا ، اسی اکثریت کو کبھی اپوزیشن والے اور کبھی اقتدار والے ، چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا کے مصداق، اپنے اپنے مقاصد کی بھینٹ چڑھا کر ،اس کا استحصال کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ لیکن اسی منہ کو لے کر کعبہ بھی چلے جاتے ہیں، اور وہاں سے واپس آ کر پھر اپنی ہوسِ اقتدار کے لئیے عوام ، عوام کھیلنا شروع کر دیتے ہیں ۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ ان کے ایک دوسرے کو چور اور سیاسی لاوارث کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا ، اگر کچھ ہو گا تو تب ، جب یہی بھوکے، ننگے ،بلکتے اور تڑپتے عوام ان کو گریبانوں سے پکڑ کر ان میں سے ہر ایک کرپٹ کے منہ سے اگلوائیں گے کہ ہاں ، میں چور ہوں ، منافق ہوں ، لٹیرا ہوں اور غاصب ہوں ، اور اس کے بعد جو ہو گا، وہی اس تہتر سالہ اندھیری رات کا سویرا ہو گا ،اور اجالا ہو گا ۔ وگرنہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اُسی کرب سے گزریں گی، جس کرب سے فی الحال، وفاقی وزیر کے مزکورہ بالا بیان اور اس کے اسباب و عوامل سے آگاہی رکھنے والے احباب اچھا خاصا گزر رہےہیں۔
سیاسی ایلیٹ کے مفادات کی تحریک میں عوام کو دلچسپی نہیں، وزیراعظم عمران خان
اس بیانیے پہ حکومتی عمائدین ہی سر تسلیمِ خم کر کے دادو تحسین کے ڈونگرے برسا سکتے ہیں، اور یا پھر وہ جن کے حکومت سے مختلف مفادات وابستہ ہیں۔ اپوزیشن کو تو چھوڑیں، کوئی بھی زی روح اور باحس انسان اس بیانیے پہ کم ازکم گرم آہیں بھر سکتا ہے اور یا پھر سرد، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ، ہر دور کے اہل اقتدار میں یہ خُو مشترک رہی ہے کہ وہ گلاس کو آدھا بھرا ہوا ہی دکھاتے ہیں ، اور اپوزیشن آدھے خالی گلاس سے ہی نظریں نہیں ہٹاتی، اور عوام کا دھیان آدھے بھرے ہوئے گلاس کی طرف جانے ہی نہیں دیتی ، لہٰذا اس حوالے سے ہر دور کے قلم کار ہی، عوام کے سامنے کسی بھی معاملے کی پوری تصویر مع سیاق و سباق ، پیش کر کے اپنی زمہ داریاں نبھا کر سرخرو ہوتے ہیں ۔ ایک لمحے کے لئیے اسے ایلیٹ کلاس کے مفادات کی تحریک مان بھی لیا جائے ، تو کیا ساتھ یہ بھی کہنا کہ اس میں عوام کی دلچسپی نہیں ہے ، ٹھیک ہو گا ، قطعاً نہیں ، عوام کو تحریک سے ایلیٹ کلاس کے مفادات کے لئیے نہیں ،بلکہ اپنے بال بچوں ، بزرگوں اور اپنی ذات کے لئیے دلچسپی ہے ، اور کیوں نہ ہو، لاہور ،کراچی ، پشاور اور کوئٹہ میں کہیں آٹا ، چینی ، چاول اور کہیں دال مسور ، چنا ، ماش ، مونگ اور لوبیا جیسی اجناس مہنگائی کی وجہ سے عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں ۔ پورے ملک کے یوٹیلیٹی اسٹورز پہ آٹا ،چینی اور چاول غائب ہو چکے ہیں ، عام عوام کو ،آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، بجٹ خسارہ ، سودی قرضوں اور دیگر پیچیدہ معاشی اصطلاحات اور اصلاحات سے کوئی غرض نہیں ، انہیں دو وقت کی روٹی چائیے ، اور اگر انہیں وہ بھی نہ ملے، تو وہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی تحریک کا کیا حصہ نہیں بنیں گے ، لہٰذا اگر خان صاحب کے بیان کو تھوڑی سی ترمیم کر کے ریلیز کیا جاتا، تو حق گوئی اور صداقت کے باب میں اس بیان کو زریں الفاظ سے لکھا جاتا اور ہو سکتا ہے کہ کوئی سماجی تنظیم اس ترمیم شدہ بیان کو کسی چھوٹے موٹے ایوارڈ کا حقدار بھی قرار دے دیتی ،ترمیم شدہ بیان کچھ یوں ہونا چاہئیے تھا کہ ، سیاسی ایلیٹ کے مفادات کی تحریک میں عوام کی مہنگائی کی وجہ سے شدید دلچسپی، وزیراعظم عمران خان
قائد اعظم کی ہدایات پہ عمل ہوتا تو بارہ اکتوبر جیسی بغاوت نہ ہوتی ، نواز شریف
اور نہ ہی موصوف کے کہنے پہ سپریم کورٹ پہ حملہ ہوتا ،اگر قائد اعظم کی ہدایات پہ عمل ہوتا ۔ چھانگا مانگا ہوتا ،نہ جنرل جیلانی ہوتا ، مودی گھر آتا نہ پانامہ میں نام آتا ، قادیانی بھائی کہلواتے یا بھگوان ہی خدا ہوتا ، کلبھوشن کے پکڑے جانے پہ کیا ایک لفظ بھی نہ ادا ہوتا ، طاہرہ سید کی موسیقی بھلی لگتی یا قطری خط کا کھڑاک ہوتا ، مرحومہ بے نظیر پہ آوازے کسے جاتے یا دُختر کا کیپٹن پہ فل سٹاپ ہوتا ، اپنا اقتدار ہاتھ سے نکلا تو چھیننے والا باغی ، اور بھٹو مرحوم کے اقتدار پہ شب خون مارنے والا غازی ، جس کی آغوش میں موصوف نے پرورش پائی، اور فیصل مسجد اسلام آباد میں مرد مومن مرد حق کے مقبرے پہ شروع کے چند سال ایک تواتر کے ساتھ ہونے والی جنرل کی برسیوں پہ ،جو مغلظات نما الفاظ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف موصوف مقرر نہ ہونے کے باوجود بھی ادا کرتے رہے ، وہ سب کچھ نعوذ باللہ کیا قائد اعظم کی ہدایات کے مطابق تھے ۔ کئی گنا زیادہ غیرت مند تو بے نظیر بھٹو مرحومہ تھیں جنہوں نے مبینہ طور پر موصوف کی بیٹی کے خلاف زبان درازی کرنے پر رانا ثنا اللہ کو اپنی پارٹی سے نکال دیا تھا ، اور جسے موصوف نے سینے سے لگا کر بعد میں وزیر قانون بھی بنا دیا تھا ۔ استغفِرُاللہ ، بات کرنے اور بیان داغنے سے پہلے انسان کو تھوڑا بہت سوچ لینا چاہئیے ، اور خود بھی قائد اعظم کی ہدایات پہ عمل کرنا چاہئیے۔
___________________________________________
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔