تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 4 )، تحریر: اے آر بابر

شہباز شریف کے واش روم میں کیمرے لگائے گئے ، شکایت پر اتارے ، مریم اورنگزیب

اس پہ تبصرہ کرنے کیلئے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے ،کہ اچانک فیس بک پر کسی نون لیگ مخالف صاحب کی ایک پوسٹ نظروں سے گزری ، موصوف نے محترمہ کے مذکورہ بیان پہ دل کے پھپھولے یہ کہہ کر جلائے تھے کہ چھوٹے میاں صاحب کے واش روم میں کیمرے دراصل اس لئیے لگوائے گئے تھے کہ کہیں شہباز شریف واش روم کے لوٹے نہ چوری کر لے۔ اس پوسٹ کو پڑھ کر نعیم بخاری کی وہ بات یاد آ گئی جو انہوں نے ماضی میں پنامہ لیک کے تناظر میں ایک نجی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کہی تھی کہ، شریف فیملی دنیا میں کہیں بھی چلی جائے ان کو سکون سے رہنے کے لئے جگہ نہ مل پائے گی ، کیونکہ ان کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہو چکے ہیں ۔ ان کا کہا اس لحاظ سے بھی درست ثابت ہو رہا ہے کہ ابھی دو چار دن پہلے بڑے میاں صاحب کی بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں موصوف سات دیگر احباب کے ساتھ لندن کے ہائیڈ پارک میں واک کر رہے ہیں ،اور انہیں دیکھ کر چند لوگ ان الفاظ کے ساتھ ایک تسلسل سے نعرہ بازی کر رہے ہیں کہ ، مریم کے پاپا چور ہیں ، مریم کے چاچا چور ہیں ۔ گو نعرہ بازی کرنے والے ویڈیو میں نظر نہیں آ رہے تھے، مگر میاں صاحب کے ساتھ واک کرنے والے ان نعرہ بازوں کو ویڈیو بنانے سے منع کرنے کی کوشش کرتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ کیا فائدہ ایسی دولت اور اقتدار کی ہوس کا، کہ جیتے جی ہی انسان اپنا ایسا گندہ تعارف خود اپنے کانوں سے سن کر جاگتی آنکھوں سے دیکھ بھی لے ۔ استغفر اللہ، چند دوست انگلینڈ سے تشریف لائے ہوئے ہیں ، انکے بقول ایون فیلڈ لندن جہاں شریف فیملی رہائش پزیر ہے، اس علاقے کے دیگر رہائشی، جو شریف فیملی کے ہمسائے ہیں ، بہت پریشان ہیں اور انکی پریشانی کی وجہ وہ شور شرابہ ہے، جو آئے روز اس نعرہ بازی کے بطن سے جنم لیتا ہے جو وہاں سے گزرنے والے دیگر پاکستانی شریف فیملی کے خلاف کر کےاپنے دلوں کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ علاوہ ازیں نواز شریف کی ہائیڈ پارک میں کی گئی واک پر پولیس نے بھی ان سے تحریری بازپرس یہ کہہ کر کی ہے کہ انہوں نے کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی ہے ،کیونکہ میاں صاحب کے ساتھ واک کرنے والے افراد، چھے سے زائد کی تعداد میں تھے جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ بہرحال دنیا مکافات عمل ہے ، ایک چھوٹا سا میدان حشر یہاں بھی بپا ہے، جہاں روزانہ اعمال کا حساب کتاب کیا جاتا ہے ، اور مشہور ضرب المثل ہے کہ زبان خلق کو نقارہِ خدا سمجھو ، اور شریف فیملی کے متعلق زبان خلق جو کہہ رہی ہے ، اس کے متعلق اوپر درج واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ البتہ نیب کو، کہ جس کی حراست میں شہباز شریف زیر تفتیش ہیں ، اسے ان کے واش روم میں کیمرے نہیں لگانے چاہئیے تھے ، ادارے کی یہ حرکت کسی طور پر بھی سراہی نہیں جا سکتی اور بداخلاقی کے ضمن میں آتی ہے ، نیب کو چاہئیے کہ اس مذموم حرکت پہ اپنا موقف پیش کرے ، اور جب تک موقف سامنے نہیں آتا تب تک فیس بک والے صاحب کے تبصرے کا تجزیہ اور اس پہ تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ بالفرض واش روم کے لوٹے اگر چرا بھی لئیے جاتے تو شہباز شریف انہیں لے کر کیا کرتے ، مذید جگ ہنسائی ہی ہونی تھی، کیونکہ بقول مریم اورنگزیب ، شہباز شریف کے کمرے میں کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں اور دوربین سے بھی ان کی نگرانی کی جاتی ہے ۔ گویا نیب کی حراست نہ ہوئی تہاڑ جیل کی قید ہو گئی ، جہاں خطرناک ترین مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔ حاصل تبصرہ صرف اتنا ہے کہ انسان کو ڈرتے رہنا چاہئے اس خالق کون ومکاں سے جو رب العالمین ہے اور اس کی لاٹھی بے آواز ہے ، پتہ بھی نہیں چلتا اور تخت سے تختہ بلکہ دھڑن تختہ ہو جاتا ہے ۔ نہ گور سکندر ہے نہ قصر دارا، مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

پتھر کھانے پڑے تو وہ بھی کھا لیں گے ، شاہد خاقان عباسی

موصوف کی طبیعت میں شاید عاجزی و انکساری کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے ، امریکی ائیرپورٹ پر وہاں کے ادنیٰ سیکورٹی اہلکاروں کے صرف ایک مرتبہ کہنے پر موصوف نے اپنی پینٹ اتار کر ان کے حوالے کر دی تھی کہ لو جہاں سے چاہے جی بھر کر چیک کر لو اور اپنی تسلی بھی ، یہ اوقات ہے ہماری اغیار اور کفار کی نظروں میں ۔ پتھر تو عمران خان پہ نون لیگی اصحاب نے ہی پھینکے تھے جب وہ ماضی میں گوجرنوالہ سے گزرے تھے ،اگر سولہ اکتوبر کو پی ڈی ایم کے متوقع جلسے کے موقع پر ایسی کوئی بدنظمی اور بد تہذیبی ہوتی ہے تو وہ نہایت افسوس ناک ہو گی۔ امید ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ حکومت مہنگائی کے ستائے عوام کی حالت زار پہ ویسے ہی اچھی خاصی پریشان اور لوگوں کی جلی کٹی سن رہی ہے ، وہ کیوں ایسا کرے گی یا ہونے دے گی، اس لئیے عباسی صاحب کو تسلی رکھنی چاہیے، اور اگر پھر بھی تسلی نہیں ہو رہی تو تصور میں ، لیلی مجنوں فلم ،جسکی شہرہ آفاق موسیقی مدن موہن اور جے دیو نے ترتیب دی تھی، اسکاوہ گیت جسے سروں کی دیوی لتا منگیشکر نے گایا تھا ، صرف کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ اپنے ذھن میں دھراتے رہنا چاہئیے ، جسکے بول ہیں ، کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو ، ہیروئن کی جگہ کرسیِ اقتدار ہو سکتی ہے یا پھر میاں صاحب کی آواز کا زنانہ ورژن ، کام دونوں سے ہی چل جائے گا ، ویسے بھی تصور پہ تو کوئی بھی اعتراض نہیں کر سکتا اور نہ ہی بندہ ہر ایک سے اپنے تصورات شئیر کرنے کا رسک لیتا ہے ۔ ایک اور بھی گانا ہے جس میں عباسی صاحب اپنے بیان کے تناظر میں میاں نواز شریف کی انگلینڈ یاترا، اور پارٹی پہ انکی غیر حاضری میں بنی مصیبت کو، سُروں کے شہنشاہ محمد رفیع مرحوم کا یہ گانا بھی بڑے میاں صاحب کو مخاطب کر کے گنگنا سکتے ہیں،مگر تصور میں ،بول کچھ یوں ہیں کہ ، پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا ، بڑی بھول ہوئی ارے ہم نے یہ کیا سمجھا یہ کیا جانا ، پتھر کے صنم ، بس خیال یہ رکھنا ہے کہ آخر والے بول زرا لمبے کر کے ادا کرنے ہیں ، اپنے اقتدار سے جدائی کے لمبے دورانیے کی طرح

اپنا تبصرہ بھیجیں