تھوڑا سچ اور سہی (قسط نمبر 5) تحریر: اے آر بابر

جہاں روکا گیا ، وہیں جلسہ ہوگا ، قمر زمان کائرہ

کل سولہ اکتوبر کو پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ میں ہونے والےمتوقع جلسے کے تناظر میں کائرہ صاحب نے اپنے تحفظات اور اس پہ اپنی حکمت عملی مذکورہ بیان ارشاد فرما کر واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جلسے کے منتظمین اس حوالے سے بہت پر عزم ہیں لیکن انہیں اس بات کا بھی خدشہ بہرحال ہے کہ حکومت انہیں ایسا کرنے نہیں دے گی ۔ گویا جلسے کے عدم انعقاد کے لئیے روڑے اٹکائے جائیں گے ۔ ایک بات تو طے ہے کہ اگر گوجرانوالہ اسٹیڈیم میں جلسہ کیا جاتا ہے تو کم از کم پینتیس ہزار افراد کے جمع ہونے پر ہی اسٹیڈیم کو چار چاند لگیں گے اور حکومت مخالف میڈیا اسے لاکھوں کا مجمع قرار دے کر کئی دن اس کی تکرار کرتا رہے گا ۔ دوسری صورت میں اگر اسٹیڈیم میں جلسہ منعقد نہیں کیا جاتا یا اس کی اجازت نہیں دی جاتی تو پھر اس کے انعقاد کے لئیے جو جگہ بچتی ہے وہ ہے اندرون شہر سے گذرتی جی ٹی روڈ ، جسے شیر شاہ سوری نے ان مقاصد کے لئیے بہرحال نہیں بنوایا تھا جو ہر دور کی اپوزیشن اس کو استعمال کر کے حاصل کرنے کی کوشش کرتی چلی آ رہی ہے ۔ بہرحال جی ٹی روڈ پہ جلسہ ہونے کی صورت میں ایک صرف ٹریفک بلاک ہونے سے ہی سینکڑوں کا جلسہ ہزاروں کی تعداد میں تبدیل ہو جائے گا اور مخالف میڈیا اسے بھی لاکھوں کا مجمع ثابت کرنے کی بھر پور کوشش فرمائے گا ۔ لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ جلسے کو اسٹیڈیم میں ہی کرنے دیا جائے اور مبصرین کو بھی حاضرین کی صحیح تعداد سے آگاہی حاصل ہو جائے جس سے مستقبل کے سیاسی خدوخال بھی خاصی حد تک نمایاں ہو جائیں گے اور تجزیہ نگار اپنی نگارشات کو بہتر طریقے سے عوام کے سامنے لا سکیں گے۔ آخری اطلاعات آنے تک اس کی اجازت دے دی گئی ۔ بہرحال بعض دل جلے کائرہ صاحب کے اس بیان پہ اپنے جذبات کا یہ کہہ کر اظہار کر رہے ہیں کہ، نواز شریف کے آخری دور حکومت میں گوجرانوالہ شہر میں پائے جانے والے گندگی کے چھوٹے بڑے پہاڑ کاش ،آج بھی قائم و دائم ہوتے اور انتظامیہ جلسے کے قائدین کو انہی متعفن پہاڑوں کے جلو میں روکتی ،اور جہاں پہ کائرہ صاحب کو اپنے کہے کی لاج رکھتے ہوئے جلسہ بھی کرنا پڑتا، تو ایک بات تو یقینی ہے کہ آئندہ کے لئیے جلسہ، جلوس تو دور کی بات کسی بھی سیاستدان نے عام حالات میں بھی شہر سے گزرنے کا رسک نہیں لیا کرنا تھا۔ فی الحال قمر زمان کائرہ کے بیان پہ ہمارا تبصرہ تو یہ کہ اہلیان گوجرانوالہ کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ، دراصل اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کےدوبارہ حصول اور موجودحکومت سے اپنے طور پر چھٹکارا پانے کے لیے سیاستدان، اس حد تک بھی جا سکتے ہیں کہ ان کا یہ فرمانا ہے کہ اگر انہیں جلسہ کرنے سے روکا گیا تو وہ وہیں پہ ڈیرے ڈال کر جلسہ کر کے ہی چھوڑیں گے جہاں بھی انہیں روکا جائے گا ، تو کیا کبھی گوجرانوالہ کے عوام نے آج تک اپنے علاقے کے لئیے ایک بھی سرکاری یونیورسٹی لینے کے لئیے، اس وقت جب خود کائرہ صاحب کی پارٹی برسرِ اقتدار تھی، اس کے خلاف ایسی کوئی جسارت کرنے کی کوشش کی تھی ، یا پھر تین دہائیوں سے زائد پنجاب میں حکمرانی کرنے والی مسلم لیگ نون کی حکومتوں میں شہریانِ گوجرانوالہ یوں جذباتی ہو کر سڑکوں پہ آ کر ڈیرے ڈال کر بیٹھے تھے ، بالکل نہیں ، لہٰذا آج بھی گوجرانوالہ میں چلڈرن ہسپتال ہے اور نہ ہی برن یونٹ ، مریض اور ان کے متعلقین بے بسی کی تصاویر بنے آئے روز لاہور روانہ کر دئیے جاتے ہیں، جہاں سے اکثر لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو لے کر ہی واہس گوجرانوالہ آ جاتے ہیں ، ایک ہی سرکاری ہسپتال ہے جو جب بنا تھا تب گوجرانوالہ کی آبادی اڑھائی لاکھ تھی اور اب پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے ، گویا یہ واحد سرکاری ہسپتال تکنیکی لحاظ سے بھی اتنی بڑی آبادی کو سہولتیں فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے ،اس میں چند دن پہلے تک صرف ایک ہی آپریشن تھیٹر تھا ،جبکہ اب ان چار میں سے ایک آپریشن تھیٹر پی ٹی آئی کے قائد اور چیئرمین وزیر اعلیٰ پنجاب شکایات سیل خواجہ خالد عزیز لون کی قیادت میں فعال ہو چکا ہے جو کہ اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے ہیں ، بچیوں کے لئیے ایک علیحدہ یونیورسٹی کو تو دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے ، سرکاری یونیورسٹی کے قیام کے لئیے جماعت اسلامی کی مقامی قیادت اور انفرادی طور پر سماجی شخصیت فیصل زیب خواجہ اپنے طور پر کوششیں کرتے رہے ہیں ،مگر اس حوالے سے کسی بھی حکومت نے ابھی تک کوئی بھی مثبت پیش رفت نہیں کی ۔شہر کا موٹر وے سے لنک بھی تا حال نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی کوئی میگا پراجیکٹ ہی گوجرانوالہ کو نصیب ہو سکا ہے ، اربوں روپے کا ٹیکس دینے والے گوجرانوالہ کا مصرف ان سیاستدانوں کے نزدیک کیا صرف یہی رہ گیا ہے کہ یہاں آ کر اقتدار کی کرسی کے حصول کے لئیے احتجاج کیا جائے اور اس کے بعد اس کو ایسے فراموش کر دیا جائے جیسے ہم من حیث العوام اپنے دینی شعار سے غافل ہو چکے ہیں ۔ شاید گوجرانوالہ کے عوام اس متوقع جلسے کے حوالے سے ہی کچھ سبق حاصل کر لیں اور اپنی ترجیحات میں اپنے شہر کی ترقی کو اہمیت دیں ناکہ ان تمام سیاسدانوں کو جو اپنی اپنی حکومتوں کے ادوار میں گوجرانوالہ کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرتے رہے ہیں اور اب یہاں آ کر جلسہ کرنے کی خواہش لئیے شہریوں سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ ان کے لئیے اپنے ہی شہر کا مذید خانہ خراب کریں ، جس کی خانہ خرابی میں ان سیاستدانوں نے پہلے ہی کوئی کسر باقی نہیں رکھ چھوڑی ، اس کے باوجود بھی اگر شہریان گوجرانوالہ ان کا ساتھ دیتے ہیں تو پھر ان کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ، خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ، نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

مکس اچار پارٹی مہنگائی کی آڑ میں اپنی کھربوں ڈالرز کی کرپشن پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے ، فیاض الحسن چوہان

پنجاب کے وزیر اطلاعات نے جذبات میں ،بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لئیے ، کے مصداق رقم کچھ زیادہ ہی بیان فرما دی ہے ۔ ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے بھی کم پاکستان پہ قرضہ ہے ، اور آپ سرکار کھربوں ڈالر کی کرپشن کا ذکر فرما کر پتہ نہیں کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ۔ایک بات البتہ وزیر موصوف کے بیان سے ہی ثابت ہو جاتی ہے کہ مہنگائی تو ہے ، اور اگر نہ ہوتی تو اس کی آڑ میں پی ڈی ایم کو جلسہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی ، چناچہ موصوف کو چاہئیے کہ مہنگائی کے کنٹرول پہ توجہ دیں ، ناکہ حقائق کے منافی اعدادوشمار بیان فرما کر اپنی نااہلی چھپانے کی بے سود کوشش کریں۔ عوام پہلے ہی زخموں سے چُور ہے ، کرپشن کے خلاف ایک سوائے بے تکی بیان بازی کر کے ،اور کچھ بھی وصول نہ کر کے ، اب ان کے زخموں پہ نمک پاشی تو نہ کریں ۔ بھوکے آدمی کا مذھب روٹی ہوتا ہے ۔ پنجابی کا ایک اکھان ہے کہ ڈھڈ چ نہ ہون روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں ،یعنی جس کے پیٹ میں روٹی نہ ہو تو اس کے لئیے ہر بات جھوٹ اور بیکار ہوتی ہے ۔ غربت تو کفر تک لے جاتی ہے ، عوام کیا پی ٹی آئی یا عمران خان کی محبت میں اتنے دیوانے ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے خالی پیٹوں اور ویران جیبوں کے ساتھ ہی ڈی ایم کے جلسے میں بھی شریک نہ ہوں گے ، بالکل ہونگے ، اور یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ میں نون لیگ کے بینرز پر جو اچھی خاصی تعداد میں مختلف مقامات پر آویزاں کیئے گئے ہیں ان پہ یہی تحریر رقم ہے کہ مہنگائی کے خلاف ان کا ساتھ دیا جائے ۔ اپوزیشن کا یہ جمہوری حق اور معاملہ فہمی کا صحیح ادراک ہے، جو وہ مہنگائی کے عنصر کو اپنے کل کے ہونے والے جلسے میں عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو شامل کرنے کے لئیے کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہی ہے ۔ عام عوام کو سبسڈی ، ریبیٹ ، امپورٹ ،ایکسپورٹ، گردشی قرضوں اور سودی نظام سے کوئی لینا دینا نہیں ، انہیں تو چاہئیے دو وقت کی روٹی، جس کا حصول ،ان کے لئیے ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔اس پہ مستزاد چوہان صاحب کا متذکرہ بیان ،جس پہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ، حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں،
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

___________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں