جلسے کیلئے اسٹیڈیم بھر کر دکھائیں، حکومت کا چیلنج، قبول ہے ، اپوزیشن
کیا مزاق ہے ،گویا فی الوقت جلسہ گاہ کا بھرنا اور خالی رہنا ہی حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے ۔ نہ بھرنے سے کیا مہنگائی اور بے سکونی کی وہ کیفیت کہ جس میں عوام بری طرح مبتلا ہو چکے ہیں ،کم ہو جائے گی، اور اگر گوجرانوالہ اسٹیڈیم جہاں پہ عوام کو مزید لولی پاپ دینے کے لئیے اکٹھ اگر مکمل طور پر کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو پھر وہی بات، کہ اس سے ایک سوائے حکومت پہ اخلاقی دباؤ ڈالنے کے اور کیا حاصل ہو گا ۔ اہل اقتدار کی آنکھیں مرضی کے مناظر دیکھنے اور کان پسند کی باتیں سننے کے عادی ہوتے ہیں ۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ، ایسا نہ صرف یہ کہ اکثر سننے کو ہی ملتا ہے بلکہ اس کی عملی تفسیر ہر برسر اقتدار سیاسی جماعت وطن عزیز میں روز اول سے ہی کرتی چلی آ رہی ہے ۔جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے ایک صرف تعلیم ہی ہے جو عوام کو روشنی میں لا کر انہیں خود کو سنوارنے اور نکھارنے کا باعث بن سکتی ہے ، مگر ہماری شرح خواندگی شرمناک اور معاشی حالت عبرتناک ہے ۔لیکن ترانہ ہم یہی گاتے ہیں کہ ،ہم زندہ قوم ہیں ، پائندہ قوم ہیں ۔ کیونکہ ہم شاید سانسوں کے چلتے رہنے کو ہی زندگی سے تعبیر کرتے ہیں ، ذہن اور جسم بے شک مفلوج ہو چکے ہوں ۔ شمالی وزیرستان، گوادر میں حملے سے ایک کیپٹن سمیت بیس اہلکار شہید ہو گئے ہیں، اور پاکستان کی گیارہ عدد جماعتوں کے نزدیک گوجرانوالہ اسٹیڈیم کو جلسہ کرنے کے لئیے مکمل بھرنا ہی اہمیت کا حامل ہے ، جبکہ حکومت انہیں زچ کرنے کے لئیے سوکنوں کی طرح چیلنج نما طعنہ زنی کر رہی ہے کہ اسٹیڈیم کو بھر کر دکھائیں ۔ ماشاءاللہ چیلنج کو بھی یوں قبول کر لیا گیا ہے جیسے کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے ۔ واہ میری عوام کے مختلف لیڈروں ، آفرین ہے تمہاری ترجیحات اور حرکات و سکنات پہ ، حملہ آوروں نے وطن کے رکھوالے شہید کر دئیے اور بجائے یہ کہ آئندہ کے لئیے ایسے کسی حادثے سے بچاؤ کے لئیے حکومت پائیدار رکاوٹیں کھڑی کرنے کی طرف دھیان دے ، فی الحال ساری توجہ گوجرانوالہ کی سڑکوں پہ کنٹینرز کھڑے کر کے عوام کو پریشان کرنے پہ مرکوز ہے ۔ اپوزیشن بھی شہدا کے ورثا کی آہوں اور سسکیوں کو اپنے گھسے پٹے نعروں میں دبا کر جلسہ گاہ کی رونق بڑھانے کو فرض عین سمجھ کر اس حوالے سے بے حسی کا مظاہرہ کرے گی ، سلام ان شہیدوں پہ جو ایسی فضولیات اور خرافات سے بے نیاز ہو کر اپنا خون اس دھرتی پہ بدستور نچھاور کرنے میں زرا سی بھی سستی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ۔ حالانکہ اپوزیشن جماعتوں کے پردیسی سرغنہ، مجھے کیوں نکالا کے بعد اسی فوج کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کرتے رہے ہیں وہ اپوزیشن میں شامل دیگر جماعتوں کے لئیے شاید قابل مزمت نہیں رہی ہو گی، تبھی تو وہ آج ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیر و شکر ہو کر مہنگائی کی آڑ میں ریاست کے خلاف اندرونی محاز کھول کر ان تمام قوتوں کے لئیے اطمینان کا باعث بن رہے ہیں ،جنہیں پاکستان کی سالمیت ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ اللّٰہ کریم حکومت اور اپوزیشن سمیت سب کو ہدایت دے ، آمین
**بھارت میں مسلمان لڑکوں سے ہندو لڑکیوں کی شادی کے خلاف کاروائی ہو گی ، بی جے پی حکومت کا اعلان **
مسئلہ شادی کرنے کا نہیں، بلکہ مسلمانوں سے شادی کرنے کا ہے ،اور وہ بھی مسلمان لڑکوں سے ہندو لڑکیوں کی شادی کا ، اگر کوئی ہندو لڑکا بھی مسلمان ہو کر مسلمان لڑکی سے یا ہندو لڑکی کو مسلمان کر کے شادی کر لیتا تو ریاست آسام کی بی جے پی حکومت کے لئیے اتنے ہی صدمے اور غم وغصہ کا باعث بنتا جو موجودہ صورت حال میں بنا ہوا ہے ۔ فلم سٹار نرگس جو سنجے دت کی والدہ تھیں اور مسلمان بھی، انہوں نے سنیل دت جو کہ مرتے دم تک ہندو ہی رہا اس سے شادی کی ، اور اسی طرح مدھو بالا جو کہ مسلمان تھی اس نے کشورکمار سے شادی کی ، ان کے خلاف کسی بھی حکومت نے کوئی ایکشن نہ لیا ، گویا ثابت یہ ہوا کہ جنگ شادی ہونے یا نہ ہونے کی نہیں یہ دراصل اسلام اور کفر کی جنگ ہے ۔ اب اگر ہندو لڑکیاں جو کہ یقیناً مسلمان ہو کر ہی مسلمان لڑکوں کے عقد میں آ رہی ہیں ، اس سے بھارتی ریاست کی ہندو حکومت کے پیٹ میں مروڑ تو اٹھیں گے ہی ، اسی لئیے اب وہ ایسی ہونے والی شادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا اعلان کر رہی ہے ۔یہ حال ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار حکومت کا ، انہیں چاہئیے کہ وہ اپنے بھگوان کا شکر ادا کریں کہ مسلمان ان کی لڑکیوں کے گھر بسا کر انہیں عزت و احترام سے نواز رہے ہیں ، وہاں تو نچلی ذات کے مظلوم ہندو مندروں میں عبادت تک کرنے نہیں جا سکتے ۔ دوسری ایک اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ چونکہ ہندو ایک سبزی خور قوم ہے اس لئیے ان میں پروٹین کی وہ مخصوص مقدار ،ان افراد کی نسبت کم ہی پائی جاتی ہے جو کہ گوشت خور ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے مردانہ وجاہت اور قد کاٹھ میں کمی رہ ہی جاتی ہے ۔ گوشت کو یونہی نہیں کھانوں کا سردار کہا گیا ، اور مسلمان ماشاءاللہ گوشت خور ہیں اور خوبصورت بھی، لہٰذا ان میں کشش تو ہو گی نا، چناچہ ہندو اب بھگتے اور پیتے رہیں گاؤں ماتا کا پیشاب اور کرتے رہیں کریک ڈاؤن ، ایسی شادیاں شروع تو ہو چکیں ،جاری و ساری بھی رہیں گی ، کیونکہ یہ عزت و احترام اور دلوں کے سودے ہیں جن میں مندرجہ بالا حیاتیاتی وجوہ بھی شامل ہے ۔
_________________________________________
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔