تھوڑا سچ اور سہی (قسط نمبر 7) تحریر: اے آر بابر

وزیراعظم کی جگہ ہوتا تو نکمے وزیروں کو بیس بیس مرتبہ گولی مارتا،ثنا اللّٰہ مستی خیل

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ایم این اے ثنا اللّٰہ مستی خیل نے اپنے وزیروں اور مشیروں کی ناقص کارکردگی پہ کڑی تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ نکمے اور ایک ٹکے کے بھی نہیں ہیں ، اور اگر وہ عمران خان کی جگہ ہوتے تو ان مشیروں اور وزیروں کو بیس بیس مرتبہ گولی مارتے۔ اتنا غصہ جو کہ ہر وزیر اور مشیر کو ایک بار نہیں بیس بیس بار گولی مارنے پہ ہی ٹھنڈا ہو گا ، کس لیول کا ہو گا ، بالکل اسی طرح جیسے ہماری عدالتیں بعض بہت ہی سفاک ،ظالم، اور جابر قاتلوں کو کئی کئی مرتبہ کی سزائے موت کا حکم سناتی ہیں ، حالانکہ مر وہ تبھی جاتے ہیں جب ایک مرتبہ ہی سزائے موت کے حکم کی تعمیل کر دی جاتی ہے ۔ جس سے صرف یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ، سزائے موت سے بھی بڑی اگر کوئی سزا ہوتی تو عدالت یقیناً اسی پہ عمل درآمد کرواتی ، مگر چونکہ ایسی کوئی سزا ہے نہیں ، لہٰذا ایک سے زائد بار موت کی سزا سنانے سے عدالت کا مقصد ریکارڈ پہ اس بات کو لانا ہوتا ہے کہ جرم یا جرائم کی نوعیت بہت ہی سنگین ہے ۔ بالکل اسی طرح ایم این اے موصوف نے اپنی ہی جماعت کے نکمے مشیروں اور وزیروں کو بیس بیس بار گولی مارنے کی خواہش ظاہر کر کے دراصل ان نکموں کی ناقص ترین کارکردگی کا اظہار کیا ہے ، اور ان پہ اتنے برہم ہیں کہ براہ راست انکو ،ان کے مناصب سے نہیں، بلکہ انہیں انکی زندگیوں سے ہی فارغ کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ بلکہ وزیراعظم کو یہ کہہ کر اکسا بھی رہے ہیں کہ اگر وہ ان کی جگہ ہوتے تو گولی مار دیتے اور وہ بھی بیس بیس مرتبہ ، لگتا ہے کہ ان کے پاس جو بندوق یا پستول ہے وہ سنگل گولی ہی نکالنے پہ قادر ہے ، ورنہ برسٹ مار کر ایک ہی مرتبہ بھی کام تمام کیا جا سکتا ہے ۔ میگزین میں بیس گولیاں ڈالیں اور ایک مرتبہ ٹریگر دبائیں، قصہ ہی تمام ، کتنا عجیب سا لگے گا کہ باری باری گولی بھی مارتے جاؤ اور ساتھ گنتی بھی گنتے جاؤ ،گولی تو ایک ہی کافی ہوتی ہے اگر صحیح جگہ پہ ماری جائے ۔ ان کے ذھن میں پتہ نہیں کون کون سے مقامات ہیں جہاں پہ موصوف بیس بیس گولیاں مارنا چاہتے ہیں ۔ بات دراصل وہی ہے کہ غصہ ہی بہت ہے ،اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ ثناء اللّٰہ مستی خیل دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہرا کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ، گویا انہیں اس بات احساس ہے کہ، آزاد رہ کر بھی وہ اس قابل ہیں کہ جیت سکتے ہیں ،اور یہی وہ بنیادی عنصر ہے کہ جس کی بنیاد پر انہوں نے بلا خوف و جھجھک دل کا غبار مذکورہ بالا باتیں کہہ کر نکالا ہے ، غصہ کرنا بنتا بھی ہے کیونکہ ،اسی کمیٹی میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی اپنے حلقوں میں بھی جانے کے قابل نہیں رہے ہیں ، اور وجہ ایک ہی بتائی گئی ہے ، مہنگائی ۔ گویا مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر عوام کے ساتھ اب برسر اقتدار جماعت کے کامیاب اراکین اسمبلی کو بھی غصے سے بے قابو کروا کر انہیں پے سے باہر بھی کروا رہا ہے ، جو وہ آپس میں ہی ایسی قاتلانہ گفتگو فرما رہے ہیں اور وہ بھی وزیراعظم کی موجودگی میں ۔ دو ٹکے کی اوقات کا تو سنا تھا کہ اوقاتوں کے میزان میں اس کا درجہ بہت ادنیٰ ہوتا ہے ،مگر ایک ٹکے کی اوقات کے متعلق کسی ماہر لسانیات سے ہی پوچھنا پڑے گا کہ کیا ہوتی ہے، پھر ہی کوئی اندازہ لگایا جا سکے گا کہ وہ مشیر اور وزیر کس درجے کے ہیں ، جن کے متعلق موصوف ایم این اے نے فرمایا ہے کہ وہ ایک ٹکے کے بھی نہیں ہیں ، ایک بات البتہ ثابت ہو گئی ہے کہ جو ایک ٹکے کے نہیں ہوتے انہیں گندے انڈے کھانے پڑتے ہیں ،اب یہ نہیں پتہ کہ منہ سے یا پھر اس سے مراد شیطان کو کنکریاں مارنے جیسا عمل ہے ، جس میں فرق صرف اتنا ہو گا کہ کنکریوں کی جگہ انڈے ہونگے، اس کے متعلق بھی اگر ثنا اللّٰہ مستی خیل کھل کر بتا دیتے تو یہ ابہام بھی ختم ہو جاتا ، پاکستانی اکثریتی عوام کی خوشحالی کی طرح

عمران خان میں اخلاقی جرات ہے تو استعفیٰ دے دیں ، خواجہ آصف

گوجرانوالہ جلسے میں روانگی سے قبل سیالکوٹ میں موصوف نے یہ بیان داغ کر ان دنوں کی یاد تازہ کر دی جب ، ایک سو چھبیس دن کے عمرانی دھرنے میں خان صاحب کنٹینر پہ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہوئے بھی ایک ہی بات ایک سے ردھم اور تسلسل سے دھراتے رہتے تھے کہ گو نواز گو کے نعرے لگ چکے، اور اب نواز شریف کو استعفیٰ دے کر واپس اپنے گھر چلے جانا چاہئیے۔ لیکن آفرین ہے ہوسِ اقتدار اور طاقت کے نشے کی ،کہ نواز شریف کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی اور وہ تب تک تخت اقتدار سے چمٹے رہے جب تک پانامہ سے شروع ہوا سفر اقامہ پر آ کر اختتام پذیر نہ ہو گیا ۔ اب اگر بقول حکومت جلسیوں میں گو عمران گو کے نعرے لگائے جائیں گے تو کیا وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں گے ۔ دھرنے کے دنوں میں یہی کہا جاتا تھا کہ فوج عمران خان کے ساتھ ہے ، اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر فوج ساتھ تھی تو نواز شریف سے استعفیٰ کیوں نہ لیا جا سکا ، اور اگر اب بھی بقول اپوزیشن فوج ہی عمران خان کے ساتھ ہے تو کیا عمران خان استعفیٰ دے دے گا۔ کون لوگ او تسی ، دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں گوجرانوالہ کے گردونواح کے ساٹھ کلومیٹر کے علاقے میں اکیس قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے انیس نشستوں پر نون لیگ کے امیدواران کامیاب قرار پائے تھے اور انہیں ملنے والے ووٹوں کی تعداد تئیس لاکھ سے زائد تھی،اسی مزکورہ علاقے میں فضل الرحمان کی جماعت کے مدرسوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے ، باقی نو جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی کا بھی ووٹ بینک بہرحال ہے ، اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو گوجرانوالہ کے جلسے میں شرکاء کی تعداد گو تسلی بخش تو تھی مگر شایانِ شان ہر گز نہیں ، لوگ اب کہاں باہر نکلتے ہیں ، جی ٹی روڈ سنسان تھی گو کنٹینرز بھی کھڑے کئیے گئے تھے مگر ان کی وجہ سے لوگوں کو جلسے میں شامل ہونے میں بلکل بھی پریشانی نہیں ہوئی ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومت اس جلسے کو جلسی کہنے میں حق بجانب ہے ۔ بعض من چلے تو یہاں تک بھی کہہ رہے ہیں کہ بالفرض اگر جلسے میں شرکاء کی تعداد لاکھوں میں بھی ہو جاتی، تو کیا مولوی فضل الرحمن صدر اور مریم صفدر وزیراعظم بن جاتیں یا بلاول زرداری آرمی چیف بن جاتے ،رات گئی بات گئی ، انگلینڈ والا اِدھر آنے کا،اور پاکستان والا کہیں اور جانے کا نام نہیں لے رہا ، ایک صرف مہنگائی پہ قابو پا لیا جائے تو باقی سب قابو میں ہی ہیں ، وہی گوجرانوالہ وہی اسٹیڈیم وہی روزمرہ کے معمولات ، وہی ہائیڈ پارک وہی ایون فیلڈ لندن ، وہی ووٹ کو عزت دو سے گو نواز گو ، اور خواجہ آصف کی بہکی بہکی باتیں

_________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں