میں معصوم، تحریر : حسن نصیر سندھو

شیطانی دماغ کے ساتھ معصوم چہرہ بھی ایک نعمت ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے، جب مصومیت کو کوئی منہ نہ لگاتا تھا، اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ شاید یہی وجہ ہے، ہمارا معصوم سا چہرہ تو سب نے سنا تھا، پر ہمیں دیکھ کر تو معصوم ادائیں بھی لوگوں کو نظر آئیں۔ اور یہ معصوم ادائیں ہماری ہر غیر محرم عورت کے سامنے اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہیں۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے، پاکستانی مرد معصوم ہو نہ ہو، بیوی کے سامنے معصوم بنے ہی نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں مرد معصوم کم اور بھیگی بلی زیادہ بنے نظر آتے ہیں۔
لیکن بات آج میری معصومیت کی ہو رہی ہے۔ تو میں بتاتا چلوں، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، کہ بچپن میں پولیو کے بجائے مجھے مصومیت کے قطرے پلائے گئے تھے۔ تبھی مجھ سے ایسی حرکات سرزد ہوئیں، جن کا ذکر آج میں ڈنکے کی چوٹ پر کرنے جا رہا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے سمجھ لیں، مجھے ہمدردی سے نفرت ہے، تسلی سے الجھن ہے، بھرم رکھنے بھی نہیں آتے اور فرشتہ صفت تو بالکل بھی نہیں ہوں، میٹھے جھوٹ کا ہنر سیکھ نہیں پایا اور معصوم سچ نے کئی لوگ چھین لے مجھ سے۔ میں آج تک اپنی معصومیت پر نہیں پچھتایا یا۔ جب بھی پچھتایا اپنی چالاکی پر پچھتایا۔ ان باتوں کے بعد بھی جن مردوں کو ہم معصوم نہیں لگتے، وہ مجھے مشکوک لگتے ہیں اور جن عورتوں کو ہم معصوم نہیں لگتے وہ مجھے معشوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بتاتا چلوں اگر مجھے غور سے دیکھا نہ جائے تو میں بھی ہیرو ہی لگتا ہوں۔ کیونکہ ایک دن پچاس سیلفیاں لینے اور انھیں ڈیلیٹ کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا تھا تصویروں میں کیا رکھا ہے بس دل صاف ہونا چاہیے۔
شروعات کرتے ہیں سکول سے، والدہ محترمہ سکول چھوڑنے جاتی تھیں۔ اور روزانہ ہماری سماعت ڈرائیونگ کے دوران احمق، ان پڑھ، جاھل، عقل نہ موت اور مردود جیسے الفاظ سے محفوظ ہوتی تھی۔ اور ہم اکثر گلہ بھی کرتے نظر آتے۔ مجھے ایک دن والد صاحب چھوڑنے گئے تو والدہ نے پوچھا آج سماعت پر کیا اثرات تھے۔ ہم نے بھی بتا دیا کہ کچھ ایسے الفاظ تھے، ماشاءاللہ، میں واری جاؤں، سبحان اللہ، نظر نہ لگے، او ہو، چاند کا ٹکڑا ہی لگ رہی ہو، نظر نہ لگے میری۔ اس رات والد نے پوچھا، آپ کو امی پسند ہیں یا ابو؟ میں نے کہا دونوں ہی پسند ہیں۔ ابو نے کہا کسی ایک کا بتاؤ نا۔
میں: دونوں ہی پسند ہیں۔
ابّو: اچھا اگر میں امریکہ جاؤں اور امی پیرس، تو آپ کس کے ساتھ جائیں گے۔
میں: پیرس، کیونکہ مجھے پیرس پسند ہے۔
ابو: اچھا اگر میں پیرس جاؤں اور امی امریکہ تو آپ کس کے ساتھ جاؤ گے.؟
میں: امریکہ
ابو: پیرس کیوں نہیں؟
میں: پیرس ایک دفعہ دیکھ لیا تھا نا۔ اب اس دن سے ناراض ہیں۔
اس طرح اسکول کے زمانے میں مجھے فنانشل ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا، جو رات کا کھانا نہیں کھائے گا، اسے پچاس روپے ملیں گے۔ سب دوست پچاس پچاس روپے لے کر سو گئے۔ جب صبح اٹھے تو میں نے کہا، ناشتہ اسے ملے گا جو پچاس روپے ادا کرے گا۔ اس دن سے دوست ناراض ہیں۔

پھر کالج میں میری سہیلی نے کہا: فرض کرو تمہارے ایک کروڑ کی لاٹری لگ جائے اور اسی دن مجھے کوئی اغوا کر لے اور ایک کروڑ مانگ لے، تو تم کیا کروگے؟ میں نے بھی معصوم سا جواب دے دیا۔ کہ یہ ناممکن ہے میری ایک دن میں دو لاٹریاں لگ ہی نہیں سکتیں۔ اس دن سے دوست بھی ناراض۔ یہ تب سے ہمارا تکیہ کلام ہے، لڑکی کو جان بنانے سے بہتر ہے، بندہ دیسی گھی کھا کے جان بنا لے۔ ویسے بھی ہمیں یقین نہیں کہ محبوبہ کی انگلی چائے میں گھمانے سے چائے میٹھی ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا تو میرا ایک معصوم سا سوال ہے، کہ پوری محبوبہ پانی والی ٹینکی میں ڈال کر روح افزا بنایا جا سکتا ہے؟

یونیورسٹی میں ایک دن آن لائن کلاس ختم ہوئی تو سر نے کہا کوئی سوال ہو تو پوچھوں۔ میں پوچھ بیٹھا سر جو درمیان میں آپ کو چائے دینے آئی تھیں وہ کون تھیں۔ سر بھی ناراض۔ زندگی میں میرا آگے نکل جانے کی وجہ بھی شاید یہ ہے۔ کہ میں نے ہمیشہ ان لوگوں کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے، جو دوسروں نے مجھ سے مشورہ لینے کے بعد کی ہوں۔ ویسے بھی عقل بادام کھانے سے نہیں آتی، بلکہ دھوکہ کھانے سے آتی ہے۔ اور میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں ہمیشہ دھوکا کھائے ہیں۔ مثال کے طور پر کھجور، سیب، انار، انگور، بادام، آم، ناشپتی وغیرہ سب دھو کے کھائے ہیں۔ آپ بھی دھو کے کھایا کریں۔

آخر میں، میری دو گزارشات: یا تو ہمیں مکمل چالاکیاں سکھائی جائیں، نہیں تو ہم معصوموں کی الگ بستیاں بنائیں جائیں۔ اور دوسرا میری دولہن شرارتی ہونی چاہیے کیونکہ معصوم تو میں خود بھی بہت ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں